دنیا کی آٹھویں تیز ترین ٹرین چلاتی سعودی خواتین ڈرائیورز

سعودی ریلوے کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر ریان الحربی کے مطابق یہ خواتین ڈرائیور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے تربیت کے دوران اپنی قابلیت ثابت کی ہے۔

ملک کی افرادی قوت میں سعودی خواتین کا تناسب 2016 کے بعد سے دوگنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے جو اب 17 فیصد سے بڑھ کر 37 فیصد ہو چکا ہے(اے ایف پی)

تارا علی عازمین کو مکہ لے جانے والی ہائی سپیڈ ٹرین چلانے والی پہلی سعودی خواتین ڈرائیورز میں سے ایک ہیں۔

تارا علی گذشتہ سال حرمین ہائی سپیڈ ریلوے میں خواتین ڈرائیورز کے لیے مختص 32 سیٹس کے لیے درخواست دینے والی تقریباً 28 ہزار درخواست گزاروں میں سے ایک تھیں۔

حرمین ہائی سپیڈ ریلوے مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کے درمیان 450 کلومیٹر کا راستہ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کرتی ہے۔

انگلش کی سابقہ ٹیچر تارا علی ان چند خوش نصیب خواتین میں شامل تھیں جو اس نیٹ ورک کا حصہ بنیں اور جنہوں نے گذشتہ ماہ اپنا پہلا سفر مکمل کیا۔

تارا علی نے اس بارے میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہاں کام کا پہلا دن، جب میں پہلی بار ٹرین کے کیبن میں داخل ہوئی، یہ میرے لیے ایک خواب جیسا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’جب آپ کیبن میں ہوتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ چیزیں بہت تیز رفتاری سے آپ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ایک خوف اور ڈر کا احساس مجھ پر طاری ہو گیا لیکن خدا کا شکر ہے کہ وقت اور سخت ٹریننگ کے ساتھ مجھ میں خود اعتمادی آتی گئی۔‘

ملک کی افرادی قوت میں سعودی خواتین کا تناسب 2016 کے بعد سے دوگنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے جو اب 17 فیصد سے بڑھ کر 37 فیصد ہو چکا ہے۔

یہ اعداد و شمار ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پالیسی کا نیتجہ ہیں جنہوں نے خواتین کے حقوق کو وسعت دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے۔

 

ان اعداد و شمار نے سعودی پالیسی سازوں کے لیے بدلتی ہوئی معیشت میں حصہ لینے میں نئی دلچسپی رکھنے والی تمام خواتین کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا اور ریلوے نیٹ ورک میں خواتین ڈرائیورز کی تعیناتی اس نئے منظر نامے کا ثبوت ہے۔

سعودی خواتین نے روایتی طور پر تعلیم اور طب جیسے چیدہ شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔

لیکن کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کو ختم کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں متعارف کرائے گئے قوانین اور ڈریس کوڈ کی پابندیوں میں نرمی نے ان کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔

ان ملازمتوں میں ویٹر، شیف اور ہوٹل ریسپشنسٹ جیسی نئی ملازمتیں شامل ہیں جن پر پہلے غیر ملکیوں کا غلبہ تھا لیکن اب حکومت کے ’سعودائزیشن‘ ایجنڈے کے تحت سعودی خواتین معاشرے کا فعال حصہ بن رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواتین کے لیے اب سماجی رویے بھی بدل رہے ہیں جیسا کہ ٹرین ڈرائیورز نے خود ان کا مشاہدہ کیا ہے۔

حال ہی میں بطور ٹرین ڈرائیور بھرتی ہونے والی ایک اور سعودی خاتون رنیم عزوز نے کہا کہ مدینہ کے ایک سفر کے اختتام پر ایک خاتون مسافر نے حیرت کا اظہار کیا کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ خواتین بھی ایسا کام کر سکتی ہیں۔

رنیم نے کہا: ’ان خاتون کا کہنا تھا کہ سچ کہوں تو جب میں نے اس (نوکری) کا اشتہار دیکھا تو میں اس کے بالکل خلاف تھی۔ میں نے کہا کہ اگر میری بیٹی مجھے ڈرائیو پر لے جائے گی تو میں اس کے ساتھ سواری نہیں کروں گی۔‘

سفر کے بحفاظت مکمل ہونے کے بعد مسافر خاتون نے خوشی کا اظہار کیا کہ عزوز نے خود کو ثابت کیا اور انہیں سفر میں کچھ مختلف محسوس نہیں ہوا۔

سعودی ریلوے کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر ریان الحربی کے مطابق یہ خواتین ڈرائیور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے تربیت کے دوران اپنی قابلیت ثابت کی ہے۔

ان کے بقول: ’یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سعودی خواتین اپنے بھائیوں کی طرح کام انجام دینے کے لیے بااختیار ہیں کیوں کہ ان میں مکمل صلاحیت موجود ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین