پاکستان میں کار فراڈ: واردات کے بعد ایف آئی آر کے علاوہ کیا ہوتا ہے؟

سہیل بھائی کو حاجی صاحب نے بتایا کہ ان کی اہلیہ شدید بیمار تھیں اور انہیں علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے وہ اس فراڈ میں ملوث ہو گئے۔ ’بعد میں وہ بھی فوت ہو گئیں۔‘

سہیل اختر کے ساتھ ہونے والے کار فراڈ کے اس واقعے کا پہلا حصہ 26 جنوری کو شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کیسے انہیں چائے کا ایک کپ 47 لاکھ نو سو روپے میں پڑا تھا۔ اس واقعے کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے۔


’72 گھنٹے بعد ایف آئی آر کٹی، اتنی دیر میں تو گاڑی جاپان پہنچ جانی تھی۔‘

سہیل بھائی گاڑی چوری ہونے کا قصہ سناتے سناتے جب یہاں پہنچے تو مجھے ہنسی آ گئی۔ واردات ڈل گئی، آدھا کروڑ ڈوب گیا، پر بندے کی جگت سلامت ہے۔ مولا ایسا ہی رکھے۔

سب سے بڑی شکایت انہیں یہ تھی کہ بندہ ایک بسکٹ کا ڈبہ چرائے یا پھر چار ارب کا فراڈ ہو، دفعات صرف تین لگائی جائیں گی۔ 420، 468، 471 ۔۔۔ یہ سب کچھ انہیں اپنے کیس کے دوران بھگتنا پڑا۔

’جب ملزم پکڑے گئے، میں پولیس والوں کے پاس گیا تو مجھے پتہ چلا کہ ان دفعات میں چھ ماہ کے بعد ملزمان کی ضمانت ہو جاتی ہے۔

’سیشن کورٹ میں نہیں ہو گی تو ہائی کورٹ میں ہو جائے گی، مطلب یہ دفعات قابل ضمانت* (Bailable) ہیں۔‘

اب پے آرڈر جعلی ثابت ہو چکا ہے، بندہ بے چارہ پوری بھاگ دوڑ کر رہا ہے اور ایف آئی آر نے 72 گھنٹے گزار کے ہی کٹنا ہے۔

’تھانے پہنچ کر میں نے ساری کہانی سنائی، انہوں نے پے آرڈر ہاتھ میں لیا، قریب کر کے غور سے دیکھا، اور بولے ۔۔۔ بھائی جان، یہ تو آپ کہہ رہے ہیں کہ پے آرڈر فیک ہے، ہم کیسے مان لیں؟‘

اب سہیل بھائی نے ترلے ڈالنے شروع کیے کہ یار صبح سے خجل ہو رہا ہوں، بینک والوں نے خود چیک کیا ہے، انہوں نے ہی کہا ہے کہ یہ جعلی ہے۔ آگے پھر سوال تیار تھا، ’کیا بینک نے کوئی مہر لگائی جعلی ہونے کی؟‘ اِنہوں نے اقرار کیا کہ ہاں بھئی، وہ تو نہیں لگائی۔

’پھر جائیں، پہلے اپنے اکاؤنٹ میں اسے جمع کروائیں، جب یہ باؤنس ہو کے واپس آئے گا، آپ کے ہاتھ میں ایک عدد سلِپ ہو گی کہ بھئی جعلی ہے یہ، تب آپ اسے لف کر کے درخواست جمع کروائیں گے اور پھر ایف آئی آر کٹ جائے گی۔‘

اب یہ بینک گئے، پے آرڈر جمع کروایا، بینک والوں نے خاص مہربانی کرتے ہوئے 36 گھنٹے کے اندر انہیں پے آرڈر واپس کر دیا۔ یہ تھانے گئے تو کہانی آگے نئی تھی۔

واردات اس تھانے کی حد میں ہی نہیں تھی، جدھر یہ چکر لگا رہے تھے۔ کوئی چار پانچ پھیروں بعد انہیں تعلیم کیا گیا کہ آپ کی گاڑی جدھر سے اُڑائی گئی ’ادھر تھانہ ایکس وائے زیڈ لگتا ہے۔‘

اب یہ دوسرے تھانے پہنچ گئے۔ ادھر نئے سرے سے پوری رام کہانی سنائی۔ انہوں نے کہا ’ہمارا سٹینڈرڈ طریقہ یہ ہے کہ ہم اس بندے کو کال کریں گے، 72 گھنٹوں تک اس نے ہم سے رابطہ نہ کیا تو پھر آپ کی ایف آئی آر کا اندراج ہو گا۔‘

یعنی شاید وہ ملزم اس دوران واپس آ جائے، واردات کا ارادہ بدل دے، یا کچھ بھی اور ایسا ہو کہ مقدمے کی نوعیت بدل جائے، تو اتنے وقت کا مارجن پولیس کی جانب سے ملزم کو دیا جائے گا۔

سہیل بھائی غریب نے بتایا کہ یار ’دو دن پہلے ہو چکے ہیں، نمبر ویسے ہی انہوں نے بند کر دیا ہے، گاڑی کا رجسٹریشن نمبر ناکوں پر چلوائیں، دو دن میں تو گاڑی واپس جاپان پہنچ جانی ہے۔‘

تاریخ پر تاریخ، ایس او پی پر ایس او پی، قصہ مختصر تین دن بعد ایف آئی آر کٹ گئی۔ ہاں اس دوران انہیں پولیس نے یہ فیور دی کہ ناکوں وغیرہ پر کالیں چلوا دیں کہ بھئی کیس پڑ گیا ہے، دھیان کریں، نظر رکھیں۔

ایف آئی آر کے بعد ’اصل صبر اور میٹھے پھل والا پروگرام شروع ہوتا ہے۔ ہمارا پھل تو ابھی پکا ہی نہیں ہے۔‘

کبھی تھانے میں لسٹیں** نکال لیتے ہیں کہ ’یہ دیکھیں جی، یہ لوگ ہیں جو پہلے فراڈ میں پکڑے گئے تھے، ان میں سے تو کوئی نہیں ہے آپ والا بندہ؟‘ پھر نادرا کے پھیرے شروع ہو گئے۔ پتہ لگا جو شناختی کارڈ انہوں نے دیے تھے وہ بھی دو نمبر تھے۔

تقریباً ایک سال بعد تین میں سے دو نامزد ملزم پکڑے گئے یعنی حاجی صاحب اور دوسرا۔ اس بیچ جو تفتیشی کارروائیاں ہوئیں، وہ اس سیریز کا تیسرا اور آخری حصہ ہو گا۔

ملزم پکڑے گئے تو کیا ہوا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تب یہ پتہ چلا کہ اصل ماسٹر مائنڈ وہ تیسرا تھا جو نہیں پکڑا گیا۔ جو بندہ حاجی صاحب کا پی اے بن کے آتا تھا، اصل بندہ وہ تھا۔ یہ جو دونوں پکڑے گئے تھے یہ بس کرائے کے فن کار تھے جنہیں ٹوپی، واسکٹ، شلوار قمیص اور اعلیٰ پرفیوم پہنا کر سہیل بھائی کے ساتھ پورا ڈرامہ سٹیج کیا گیا۔

پکڑے جانے والے دونوں ملزم اس تیسرے بندے نے پانچ پانچ لاکھ فی بندہ کی فیس پر اس فراڈ کے لیے ہائر کیے تھے۔ حاجی صاحب بھی اس تماشے کا ایک ’کردار‘ تھے۔

حاجی صاحب نے بتایا کہ ان کی اہلیہ شدید بیمار تھیں اور انہیں علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی، جس کی وجہ سے وہ اس فراڈ میں ملوث ہو گئے۔ ’بعد میں وہ بھی فوت ہو گئیں۔‘

ملزم پکڑے گئے۔ عدالت کے پھیرے شروع ہوئے۔ ملزموں نے وکیل کروائے، سہیل بھائی نے بھی وکیل کا بندوبست کیا۔ اب گاڑی چوری ایک طرف، نئے خرچے شروع ہو گئے۔ پندرہ دن تک ریمانڈ کھنچا، اس کے بعد دونوں بندے جیل بھیج دیے گئے۔

جرم ہو گیا، ریمانڈ پورا ہوا، ملزم جیل میں ہیں، پیسے کہاں سے برآمد ہوں گے؟ سہیل بھائی نے جب ارباب اختیار سے یہ پوچھا تو انہیں کہا گیا کہ ’تیسرے کو ڈھونڈیں، جس کے پاس گاڑی ہے۔‘

جو دو بندے گرفتار ہوئے تھے وہ گاڑی کی حوالگی سے انکاری تھے۔ گاڑی ان کے مطابق سرغنے کے پاس تھی جس نے انہیں اس کام کے لیے ہائر کیا تھا اور واردات کے دو دن بعد ان سے گاڑی لے کر چلا گیا تھا۔

تیسرا بندہ اب تک مفرور ہے۔ سہیل بھائی کے پیسے اب تک ہوا میں ہیں۔ دونوں بندے اب ضمانت پر ہیں۔ 16 کیس ایسے ہی پے آرڈر فراڈ کے مزید ہو چکے ہیں اور ان متاثرین کا ایک وٹس ایپ گروپ بھی ہے، جس کے ایڈمن سہیل بھائی ہیں۔

گاڑی دیتے ہوئے دھیان کریں، خدا کسی کو اس طریقے سے ایسے گروپ کا ایڈمن نہ لگوائے!


* تینوں دفعات 420، 468، 471 اور چھ ماہ میں ان کے قابل ضمانت ہونے کے حوالے سے انڈپینڈٹ اردو نے وکلا سے تصدیق کی۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا یہ تھا کہ ’اس کیس کا اب تک چالان مکمل نہیں ہوا، ورنہ جتنی بڑی رقم کا فراڈ ہوا ہے، چالان مکمل ہوتا تو شاید ضمانت نہ ہو پاتی۔‘ 

**پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر گذشتہ 12 سال کے دوران کار فراڈ کرنے والوں کی تصاویر 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ