اسلام آباد: سیشن عدالت سے ضمانت کے بعد فواد چوہدری رہا

جج فیضان حیدر گیلانی نے کہا کہ ’اس شرط پر ضمانت دے رہا ہوں کہ فواد چوہدری یہ گفتگو نہیں دہرائیں گے۔‘

پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری 27 جنوری 2023 کو اسلام آباد کی ایک عدالت میں سماعت کے بعد (اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف متنازع بیان دینے کے مقدمے میں ضمانت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کو اڈیالا جیل سے رہا کر دیا گیا۔

اڈیالا جیل انتظامیہ کے مطابق فواد چوہدری کو رہا کر دیا گیا ہے۔

بدھ کو ایڈیشنل سیشن فیضان حیدر گیلانی نے فواد چوہدری کی درخواست ضمانت 20 ہزار روپے کے مچلکے کے عوض منظور کی تھی۔

جج فیضان حیدر گیلانی نے کہا کہ ’اس شرط پر ضمانت دے رہا ہوں کہ فواد چوہدری یہ گفتگو نہیں دہرائیں گے۔‘

بدھ کو ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے فواد چوہدری کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر سینیئر وکیل اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان بھی عدالت میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سینیٹر اعظم سواتی، ڈاکٹر شہزاد وسیم اور فواد چوہدری کی اہلیہ حبہ چوہدری بھی عدالت کے سامنے موجود تھے۔

تفتیشی افسر ریکارڈ سمیت عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو ایڈیشنل سیشن جج نے مسکراتے ہوئے بابر اعوان سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ریکارڈ آگیا ہے مبارک ہو۔

بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس میں مدعی سیکریٹری الیکشن کمیشن ریاست نہیں ہے۔ جس طرح انہوں نے لکھا کہ فواد چوہدری کا بیان ریاست کے خلاف ہے، کیا الیکشن کمیشن گورنمنٹ ہے؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹیو اتھارٹی گورنمنٹ ہے الیکشن کمیشن کیا ہے؟ اس پر عدالت کے سامنے دلائل رکھوں گا۔‘

بابر اعوان نے کہا کہ ’الیکشن نا گورنمنٹ ہے نا ہی ریاست ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ اتھارٹی ہے۔ جس طرح کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔ اس کیس میں زیادہ سے زیادہ صرف دفعہ 501 (1) لگا سکتے تھے۔ ان دفعات میں زیادہ سے زیادہ 10 سال، عمر قید سزا دی جا سکتی ہے کم سے کم تین سال ہے۔ اس میں کم سے کم سزا ذہن میں رکھنی چاہیے۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری نے جو کہا ’ان کے گھروں تک چھوڑ کر آئیں گے اس کا کیا مطلب ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ’گھر تک چھوڑ کر آنا ایک محاورہ ہے جس طرح پنجابی بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹرین کے بارے میں کہا ٹریکٹر ٹرالی اور شرم حیا کرو کہا جاتا رہا۔‘

جج نے جواباً کہا کہ ’وہ سابق پارلیمنٹیرین ہیں ان سے لاعلمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو پتہ ہے پاکستان میں لٹریسی ریٹ کیا ہے۔ جب کوئی لیڈر بات کرتا ہے کیا توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی ری ایکشن نہیں ہو گا؟ ہماری کولیگ (جج زیبا چوہدری) کے ساتھ بھی اس طرح کی بات کی گئی بعد میں معافی مانگ لی گئی۔ آپ اس طرف جاتے ہی کیوں ہیں کہ بعد میں معافی مانگنے پڑے؟‘

بابر اعوان کے بعد پراسیکیوٹر نسیم ضیا نے دلائل شروع کیے۔ ’الیکشن کمیشن کی ذمہ داری آئینی طور پر انتخابات کروانا ہے۔ تمام فنکشن حکومت خود نہیں کرتی، ذمہ داریاں لگاتی ہے۔ آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی شخصیت بارے غلط بات کرنا نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن کے ملازم کو منشی بنا دیا۔‘

جج نے استفسار کیا کہ ’کیا منشی کہنے پر وکیلوں کے منشیوں نے کوئی اعتراض اٹھایا؟ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جا رہا ہے؟‘

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’آپ فواد چوہدری کے بیان کو دیکھیں تو اخلاقیات کہاں رہ گئیں۔‘

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’وہ تو پاکستان میں ویسے بھی نہیں ہے۔‘

پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں فواد چوہدری کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کے بیان سے عوام میں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ فواد چوہدری نے ٹیلیویژن پر بیٹھ کر کہا کہ ملک میں بغاوت فرض ہے۔ سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی جاری ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سعدحسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کا فوٹوگرامیڑک اور وائس میچ کا ٹیسٹ ہوا۔‘

جج نے استفسار کیا کہ اگر فواد چوہدری اپنا بیان مان رہے ہیں تو کیوں ٹیسٹ کروائے گئے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست