لسبیلہ بس حادثہ: موت کے یقین کے باوجود لاش کے منتظر اہل خانہ

لسبیلہ بس حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین یہ تو جانتے ہیں کہ ان کے پیارے اسی بس میں سوار تھے لیکن وہ ان کو پہچان نہیں پا رہے ہیں۔

لسبیلہ بس حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین تاحال اپنے پیاروں کی لاشیں ملنے کے منتظر ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں گذشتہ دنوں پیش آنے والے واقعات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان واقعات میں اپنی جانیں گنوانے والوں میں بچے، بوڑھے اور نوجوان سب شامل ہیں۔

ایک واقعہ کوہاٹ میں پیش آیا جہاں سیر کی غرض سے جانے والے مدرسے کے چند بچوں کی کشتی ایک ڈیم میں الٹ گئی۔ حادثے کو گزرے چار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں تاہم تاحال ڈوبنے والے بچوں کی اصل تعداد واضح نہیں ہو پائی ہے۔

دوسرا واقعہ بھی خیبر پختونخوا میں ہی پیش آیا جہاں دہشت گردوں نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا۔

اس دھماکے کے نتیجے میں سو کے قریب اموات ہوئیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے جو تاحال ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس واقعے کے بعد بھی دو روز تک ریسکیو آپریشن جاری رہا اور ملبے تلے دبے افراد کو تلاش کیا جاتا رہا۔

تیسرا واقعہ بلوچستان میں پیش آیا، جہاں ضلع لسبیلہ میں ایک مسافر بس کو حادثہ پیش آیا جس میں 41 اموات ہوئیں۔

اس حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین یہ تو جانتے ہیں کہ ان کے پیارے اسی بس میں سوار تھے لیکن وہ ان کو پہچان نہیں پا رہے ہیں۔

اسی بس میں سوار ایک 22 سالہ نوجوان فرید خان ترین بھی تھے جنہوں نے دبئی جانے کا خواب دیکھا تھا تاہم ان کا خواب بھی انہی کے ساتھ اس حادثے کی نذر ہوگیا۔

فرید خان ترین کے بھائی وارث خان کہتے ہیں کہ ’بھائی کا غم مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ ہم ابھی تک لاش کی شناخت نہیں کر پائے ہیں۔‘

وارث خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرا چھوٹا بھائی فرید جو کراچی میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا، وہ بلوچستان میں اپنے گاؤں گیا تھا، واپس آتے ہوئے اسی کوچ کا ٹکٹ لیا تھا، جو بیلہ کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی۔‘

’میرے بھائی نے ساڑھے نو بجے کے قریب مجھے فون کیا تھا اور مستونگ سے انہوں نے بتایا کہ سفر اچھا چل رہا ہے۔ انہوں نے گاڑی کی خرابی یا کسی اور چیز کا ذکر نہیں کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وارث کے مطابق ’حادثات میں لوگ مر جاتے ہیں اور میت ملنے کے بعد دفن کر دیتے ہیں، جس سے کچھ غم کم ہو جاتا ہے، لیکن فرید کا غم دن بدن زیادہ بڑھنے کے باعث تکلیف بھی دے رہا ہے کیونکہ تاحال اس کی لاش بھی پہچان نہہں سکے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ فرید پڑھائی کے ساتھ ایمبرائیڈری ڈیزائنر بھی تھا، ان کا دبئی میں کسی فرم میں کام ہو گیا تھا، جس کے لیے ہم نے پاسپورٹ بھی بنوا لیا تھا، بعد میں فرم نے بتایا کہ آپ لوگ کچھ وقت انتظار کریں۔‘

’واقعے کی اطلاع ملنے پر ہم 11 بجے کے بعد بیلہ گئے، جہاں لاشوں کو بس سے نکالا جا رہا تھا، تاہم وہ اس طرح جل گئے تھےکہ شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔‘

وارث خان ترین نے مزید بتایا کہ ’اس وقت تمام لاشیں ایدھی سرد خانے میں رکھی ہیں، جن کے ڈی این اے سیمپل لے لیے گئے ہیں۔ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے کہ نتائج ملنے کے بعد آپ لوگوں کو بتا دیا جائے گا۔‘

بس حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے بس میں لگی آگ تو بظاہر بجھ گئی ہے، تاہم ان کے اس کی شدت ان کے دلوں میں موجود رہے گی، جب تک ان لاشوں کی شناخت کر کے ان کی تدفین نہیں کر دی جاتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان