ڈیم حادثہ: کمزور کشتی، حفاظتی تدابیر کی کمی نے بچوں کی جان لی

ضلع کوہاٹ میں واقع تاندہ ڈیم کے قریبی دیہاتوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ عمر رسیدہ ملاح اس علاقے میں برسوں سے کشتی چلا رہے تھے لیکن کبھی ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں 29 جنوری کو کشتی حادثے کا شکار ہونے والے تمام افراد کو پانی سے نکال لیا گیا ہے، تاہم صرف ایک بچے کی تلاش تاحال جاری ہے، جس کے بعد جان سے جانے والوں کی تعداد 52 ہو جائے گی جبکہ چھ افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔

دستیاب معلومات کے مطابق کشتی میں کل 58 افراد سوار تھے۔

کوہاٹ میں ریسکیو 1122 کے انچارج محمد جواد خلیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاپتہ بچے حمزہ کی ریکوری کے لیے بدھ کی صبح دوبارہ ریسکیو آپریشن کیا جائے گا۔

جواد خلیل نے بتایا کہ تاندہ ڈیم میں گذشتہ دو سال میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ ہے، تاہم اس سے کچھ عرصہ قبل بھی دو افراد اسی جھیل میں ڈوب چکے ہیں۔

ان کے مطابق: ’لوگوں کو بہت بڑا سبق ملا ہے۔ بعض لوگ ہم پر بھی برہم تھے کہ کیوں حفاظتی تدابیر کے لیے کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا، لیکن ہمارا کام شعور اجاگر کرنا اور دوران  ایمرجنسی عوام کی مدد کرنا ہے۔‘

تاندہ ڈیم واقعے میں متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد اب معلوم ہوگئی ہے، جو ابتدا میں نہ تو مدرسے کے منتظمین، نہ پولیس، نہ ضلعی انتظامیہ اور نہ اس چوکی کو معلوم تھی جو عین جھیل کے پاس واقع ہے۔

مدرسے کے مہتمم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو واقعے کے اگلے دن بتایا تھا کہ ’تقریباً 50 بچوں کو انہوں نے خود کشتی میں بٹھایا تھا۔‘

تاہم لفظ ’تقریباً‘ نے معاملے میں ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کردی تھی، حالانکہ ناموں اور صحیح تعداد صرف ان ہی سے مل سکتی تھی۔

حادثے کے بعد دو دن تک نہ تو مدرسہ اور نہ ہی پولیس ناموں کی مکمل فہرست جاری کرسکی تھی۔ دوسری جانب عوام اس بات پر بھی برہم دکھائی دیے کہ آخر ضلعی انتظامیہ یا کسی محکمے نے تاندہ ڈیم میں کشتی کی سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل میں صرف دو کشتیاں ہی تھیں، جن میں ایک ماہی گیروں کی اور دوسری حادثے کا شکار ہونے والی حفیظ اللہ ملاح کی تھی، جو کئی عرصے سے یہاں کشتی چلا کر گزر بسر کر رہے تھے۔

عمر رسیدہ حفیظ اللہ خود بھی اس حادثے کا شکار ہوئے اور ان کی لاش دو دن بعد 31 جنوری کو ملی۔

اس کے علاوہ حفیظ اللہ کی ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے، جس میں وہ کچھ بچوں کو کشتی میں بٹھاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کشتی کی ساخت انتہائی ناقابل اعتبار اور توازن ٹھیک نہیں، تاہم یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا یہ حالیہ واقعے سے قبل کی ویڈیو ہے یا پھر کسی اور موقع پر بنائی گئی ہے۔

مدرسے کے مہتمم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ وہ اس سے قبل بھی طلبہ کو تاندہ ڈیم میں کشتی کی سیر کروا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، جتنے بچوں کو پانی سے نکالا گیا ہے، ان سب نے سفید رنگ کا یونیفارم پہنا ہوا ہے جبکہ ویڈیو میں بچوں کے یونیفارم کا رنگ نیلا ہے۔

تاندہ ڈیم کے قریبی دیہاتوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ عمررسیدہ ملاح اس علاقے میں برسوں سے کشتی چلا رہے تھے لیکن کبھی ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔

حاصل کردہ معلومات کے مطابق ملاح کے پاس چار لائف جیکٹس تھیں، تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال نہ وہ خود کر رہے تھے اور نہ کسی اور کو پہناتے تھے۔ وہ اس ناقابل اعتبار کشتی میں زیادہ افراد کو بھی بٹھاتے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک غیر لائسنس یافتہ، عمر رسیدہ شخص کو ایک ناقابل اعتبار کشتی میں بغیر لائف جیکٹس زیادہ تعداد میں سیاحوں کو بٹھانے پر پابندی کیوں نہ لگائی گئی اور نہ ہی جھیل کو اس قسم کی سیاحت کے لیے بند کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تمام صورت حال پر ڈپٹی کمشنر کوہاٹ فرقان اشرف سے انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کال منقطع کی کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کر سکتے۔

جبکہ یہی بات اسسٹنٹ کمشنر عثمان اشراف الدین نے بھی کی۔

یہ بات بھی سامنے آئی کہ مدرسے کے مہتمم مبینہ طور پر والدین کی اجازت کے بغیر بچوں کو سیر پر لے گئے، جن کو حادثے کے بعد  بچوں کی کل تعداد اور تمام ناموں کے بارے میں بھی قوی معلومات نہیں تھیں۔

پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی سینکڑوں کشتی کے ایسے حادثے پیش آتے رہے ہیں۔

حالیہ بڑا حادثہ جولائی 2022 میں صادق آباد کی یونین کونسل ماچھکہ میں پیش آیا تھا، جس کی  تفصیلات کے مطابق تقریباً 100 باراتی ایک کشتی میں بیٹھ گئے تھے۔ نتیجتاً کشتی ڈوب گئی اور 19 خواتین جان سے چلی گئیں۔

کشتی رانی کے رہنما اصول کیا ہیں؟

دنیا بھر میں جن ممالک میں جہاز رانی اور کشتی رانی زیادہ ہوتی ہے ان ممالک نے ہی وقت کے ساتھ ساتھ وہ تمام رہنما اصول بنائے ہیں، جن پر عمل پیرا نہ ہونا موت کو بلاوا دینے کے مترادف ہے۔

ڈنوب ڈیلٹا، زیزو میگزین، ڈسکور بوٹنگ اور کئی دیگر ویب سائٹس کے مطابق کشتی کی سیر پر جانے سے قبل جن اہم نکات کو جاننا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں۔

1- سب سے اہم اور اولین نکتہ لائف جیکٹ پہننے کا ہے۔ کشتی میں سیر سے قبل لائف جیکٹ پہننا اور صحیح طریقے سے پہننا ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ بھی ہے کہ یہ لائف جیکٹ ہر شخص کے جسم کے مطابق اور کسی لائسنس یافتہ کمپنی کی ہو۔ یہ جیکٹس ڈھیلی نہ ہوں، ہائبرڈ اور سر کو پانی کی سطح سے زیادہ دیر تک اوپر رکھ سکتی ہوں۔ 

پاکستان میں ایک لائف جیکٹ کی آن لائن قیمت سات سو سے لے کر پانچ ہزار روپے تک ہے۔

2- کشتی اور اس کے اندر سامان، انجن اور دوسری اشیا کے وزن اور ساخت کے مطابق ہی سیاحوں کو بٹھانے کا تعین کیا جاتا ہے، جس کا تعین لائسنس یافتہ کمپنیاں یا پھر حکومت کے متعلقہ محکمے کرتے ہیں اور ملاح اسی اصول کے مطابق چلتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

3- اگر موسم کے تیور ٹھیک نہ ہوں، تیز ہوا چل رہی ہو یا تیز بارش کی پیشگوئی ہو تو کشتی میں نہ بیٹھنے میں ہی عافیت ہے۔

4- کشتی میں سوار ہونے سے قبل ایک چیک لسٹ بنائی جائے اور ساتھ لے جانے والے سامان کے تمام ڈھکن مضبوطی سے بند کیے جائیں۔

5- ایسے جوتے پہنے جائیں، جن کے پھسلنے کا خطرہ نہ ہو۔ ایسے کپڑے پہنے جائیں جو موسم کے مطابق ہوں اور جن کا کسی چیز میں پھنس جانے کا خدشہ نہ ہو۔

6- کشتی میں نشہ آور چیزیں لے جانا یا نشہ کرنے والے افراد کا بیٹھنا ممنوع ہونا چاہیے۔

7- اچھل کود سے اجتناب برتی جائے۔ کشتی میں صرف ڈرائیور کی اجازت پر محتاط طریقے سے اندر جانا اور واپس باہر آنا چاہیے۔

8- کشتی میں بیٹھتے وقت تمام اصول وقواعد کی پیروی کرنی چاہیے اور کوئی بھی ایسی چیز کشتی کے باہر پانی میں نہیں گرانا چاہیے، جس کی وجہ سے کشتی کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔

9- نیوی گیشن اور ٹریفک کے قواعد کی پابندی کرنی چاہیے۔

10- فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھنا بھی ضروری ہے، جس میں ضروری ادویات اور سرجیکل سامان ہونا چاہیے۔

11- کشتی کی مرمت اور اس کو پانی میں چلانے کے لیے بہترین حالت میں ہونا چاہیے۔

12- ڈرائیور کا لائسنس یافتہ ہونا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان