بحری بیڑے اور کشتیاں بنانے کا دم توڑتا فن

ضلع میانوالی کے رہائشی غلام قادر کا خاندان تین نسلوں سے کشتی بانی اور کشتیاں بنانے کے فن سے وابستہ ہے، تاہم اب ان کا کام پہلے جیسا نہیں رہا۔

دریا زمانہ قدیم سے ہی آمدورفت کا ذریعہ رہے ہیں اور کئی صدیوں سے دریائی راستے تجارت کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، تاہم سائنس کی ترقی کے ساتھ زندگی گزارنے کے انداز اور سفر کے طور طریقے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔

روایتی طریقے سے کشتی تیار کرنا ایک فن ہے اور صوبہ پنجاب میں دریائے سندھ کے کنارے واقع ضلع میانوالی میں اس جدید دور میں بھی کشتی سازی کے لیے پرانے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

ضلع میانوالی میں پہاڑیوں کے دامن میں آباد شہر ماڑی میں کشتیاں بنانے والے کاریگر غلام قادر کا خاندان بھی کئی دہائیوں سے اس فن سے منسلک ہے۔

غلام قادر کے دادا قیام پاکستان سے پہلے بڑے بڑے بحری بیڑے تیار کیا کرتے تھے، جو تجارتی مقاصد کے لیے کالا باغ سے نمک اور دیگر اشیا لاد کر سکھر تک پہنچاتے تھے اور بعض اوقات ایک ہزار من تک وزن کے ساتھ یہ بحری بیڑے سکھر تک جایا کرتے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں غلام قادر نے بتایا کہ ان کے والد چشمہ بیراج، تونسہ بیراج اور سکھر تک کشتیاں تیار کرنے جاتے تھے، تاہم تیز رفتار لانچیں آ جانے کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مگر پھر بھی ہم اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ مالک ہے۔ وہ روزی بھیج دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی اور لکڑی مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی اس کام پر بہت اثر پڑا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غلام قادر نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کام کم ہونے کے باعث وہ اپنے ضلعے سے باہر بھی جاتے ہیں اور جہاں سے آرڈر ملے کشتی تیار کرتے ہیں۔

کشتی تیار کرنے کے لیے دیار کی لکڑی استعمال ہوتی ہے، جب کہ شیشم  اور سفیدے کی لکڑی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم غلام قادر کے مطابق: ’دیار کے علاوہ دوسری لکڑیاں اتنی پائیدار نہیں ہیں۔‘

غلام قادر نے بتایا کہ آٹو موٹر کے آنے سے پہلے کشتیاں چپو سے چلائی جاتی تھیں، لیکن موٹروں کے آنے سے دریائی سفر تیز ہو گیا ہے۔  

انہوں نے بتایا کہ ایک کشتی کی تیاری میں 20 دن سے ایک مہینہ لگ جاتا ہے جبکہ اس کام میں تین سے چار لوگ حصہ لیتے ہیں۔

بقول غلام قادر: ’ہم ٹھیکے پر کام کرتے ہیں، جس کے مکمل ہونے پر دوسری جگہ جا کر نیا ٹھیکہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا