پشاور حملہ: طالبان وزیر خارجہ کا بیان ’نمک پاشی کے مترادف‘

پشاور میں پولیس لائنز خودکش حملے پر طالبان وزیر خارجہ کے بیان پر پاکستان میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

افغان طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی جن کے حالیہ بیان پر پاکستان میں سرکاری حلقوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے (امیر خان متقی ٹوئٹر)

پاکستان میں حکومت اور سکیورٹی سے منسلک حکام نے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کا پشاور خودکش حملے سے متعلق بیان کو زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کے مترادف قرار دیا ہے۔

دارالحکومت کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اس سنگین واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ خطہ بارود، دھماکوں اور جنگوں سے آشنا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی جیکٹ، کوئی خودکش، کوئی چھوٹا بم اتنی تباہی پھیلائے۔ پچھلے 20 سالوں میں ہم نے کوئی بم ایسا نہیں دیکھا جو مسجد کی چھت اور سینکڑوں انسانوں کو اڑائے۔ لہذا اس کی باریک بینی سے تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کا الزام افغانستان پر نہ لگایا جائے۔‘

پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش حملے کے نتیجے میں 100 کے قریب اموات ہوئیں جن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی جبکہ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے متعدد تاحال ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

اس بڑی تباہی کے بعد پاکستان کی عمومی فضا انتہائی سوگوار ہے۔ اس غم و غصے میں محض پولیس فورس تنہا نہیں بلکہ پوری قوم شریک ہے۔ پشاور میں اس دہشت گردی کی کارروائی کے خلاف مذمتوں کا سلسلہ اندرون و بیرون ملک اب بھی جاری ہے۔

امریکہ سمیت دنیا بھی کی حکومتوں نے اس حملے کی مذمت کی۔ ملک کے اندر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی مذمتی قراردار متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اجلاس کے دوران افغان پناہ گزینوں کی پاکستان میں موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ کئی دہائیوں کی افغانستان جنگ کے دوران ہزاروں افغانوں کو ملک میں محفوظ جگہ مہیا کی۔

’ہمسایہ ملک کی یہ جنگ ہماری دہلیز پر بھی آگئی۔ پاکستان کو سوات سے لے کر باجوڑ اور وزیرستان سمیت ملک بھر میں بدامنی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس بیان سے ہر پاکستانی کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے جو سینکڑوں معصوم انسانی جانوں کے اس ضیاع پر غم زدہ ہیں۔

’کسی ایک انسان کی جان بھی ناحق ضائع ہو تو اس کی مذمت ہونی چاہیے چہ جا یہ کہ پاکستان کو یہ کہا جائے کہ ایک چھوٹا دھماکہ اتنی تباہی نہیں کرسکتا۔ پاکستانی تدفین کے کرب سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دوسرے ملک بیٹھ کر اسے ایک چھوٹا دھماکہ قرار دے دیا۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ چھوٹا دھماکہ تھا؟‘

خود بیرون ملک مقیم افغان اس حملے کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتے ہیں۔ ٹوئٹر پر ایک صارف انوری نے کہا کہ اس حملے کی وجہ طالبان سربراہ کا بیان تھا۔

افغان امور کے ماہرین اور عسکری ماہرین کے خیال میں ’افغان طالبان تو اس قسم کے حملوں کا کافی تجربہ رکھتی ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کو معلوم ہوگا کہ دھماکے کی شدت کا زیادہ انحصار اس کے محل وقوع اور حالات پر ہوتا ہے۔

’کوئی چھوٹا دھماکہ شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور کوئی بڑا حملہ بغیر کسی نقصان کے ہوسکتا ہے۔ یہ سائنسی اور تکنیکی پہلو شاید آپ کو سمجھ نہ آئیں۔‘

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور جلد ہی مزید تفصیلات سامنے آجائیں گی اور اس سلسلے میں انہیں فی الحال کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔

’طالبان حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کو نصیحت اور مشورے دینے کی بجائے ان امور کی جانب توجہ دے جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ کئی پاکستان حلقوں کی جانب سے اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔‘

پاکستان کا امن و امان افغانستان میں امن و سلامتی کی مجموعی صورتِ حال سے مشروط رہا ہے جب کہ افغانستان گذشتہ چار دہائیوں سے دہشت گردی، جنگ اور خانہ جنگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسی بدامنی کے اثرات سرحد کے اس پار بھی منتقل ہوئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان ہمسایہ برادر ممالک ہیں جن کی 2400 کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے۔ اس طویل سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے دونوں ممالک کا مشترکہ کوششیں کرنا ضروری ہے۔ افغانستان کی جانب سے پاک۔افغان سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کے خلاف بھی احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ دہشت گرد پچھلے ایک سال کے دوران کئی بار یہ سرحد عبور کر کے پاکستان کے اندر حملے کر چکے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ نے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کا حوالہ بھی دیا کہ وہ پر امن ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر آزاد ہیں اور  ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

2021 میں دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ممکن ہوا جس میں پاکستان کے سفارتی  کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغان حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔

لیکن پاکستان کی سرحد کے اندر حملے کیے گئے ہیں اور پاکستان کو قیمتی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اعداوشمار کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان متعدد بار احتجاج بھی کر چکا ہے کہ سرحد پار سے ان مذموم کارروائیوں کا سدباب کیا جائے مگر اس پر کان نہیں دھرے گئے۔

افغانستان میں القاعدہ اور داعش (آئی ایس کے پی) کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور وہاں تحریکِ طالبان پاکستان مخالف تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں قائم اور سرگرم ہیں۔ خیال ہے کہ یہ تنظیمیں پاکستان میں کارروائیاں کر کے واپس اپنے ٹھکانوں پر چلی جاتی ہیں۔

پاک، افغان سرحد کی حفاطت اور نگرانی دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور افغانستان کو پاکستان پر تنقید کرنے کی بجائے اپنے حصے کی ذمہ داری پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکام حکام کہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے آپس میں تعاون کی ضرورت پر محض زور دینے سے آگے پیش رفت کرتے ہوئے اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی کرنے چاہییں۔

طالبان وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’پاکستان کے محترم وزرا سے بھی امید ہے اپنے کندھوں کا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالیں۔‘ پاکستانی حکام اس پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا اصرار ہے کہ اس بیان کے برعکس پاکستان کئی دہائیوں سے اپنے افغان بھائیوں کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کرتا رہا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہریوں نے یہاں پناہ لی۔ پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں  کو  جس فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوش آمدید کہا اس کی مثال نہیں ملتی۔ لگ بھگ 33 لاکھ افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی جو ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے۔

ان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ہنوز پاکستان میں موجود ہے اور اچھی زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستانی حکام مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنا بوجھ خود اٹھانے کے مشورے دینے کی بجائے افغان رہنماؤں کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ’ضروری ہے کہ افغان حکومت اپنی سرحدوں کے اندر چھپے پاکستان دشمن عناصر کی سرگرمیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے باہمی دشمنی کا بیج نہ بوئے  اور ان کے خلاف کارروائی کرے تاکہ دو برادر اقوام کے مابین بھائی چارے کی فضا میں دوستی اور تعاون کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘

خود طالبان حکومت کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جس کے لیے لامحالہ عالمی تعاون اور کوششیں درکار ہیں۔ ان کی حکومت اپنی کئی پالیسیوں کی بنیاد پر عالمی حمایت حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔

طالبان حکومت افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر رہی ہے اور وہاں انسانی حقوق کی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ طالبان حکومت ان اہم امور کی جانب توجہ دیئے بغیر نہ تو عالمی برادری کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی ان کی حمایت اور توجہ حاصل کرسکتی جو افغان حکومت کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔

ماہرین کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو لے کر اس وقت پاکستان اور افغان حکام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا