امریکی بحریہ کے اہلکار اتوار کو اس مشتبہ چینی جاسوس غبارے کا ملبہ تلاش کرتے رہے، جس کو کئی روز تک شمالی امریکہ پر پرواز کے بعد مار گرایا گیا تھا۔
اس غبارے کو مار گرانے پر چین نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ بغیر پائلٹ کے موسم کی نگرانی کرنے والی ایئرشپ تھی جو راستے سے بھٹ گئی تھی۔
چین کے نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے کہا ’امریکہ کے ان اقدامات نے دونوں فریقوں کی کوششوں اور چین اور امریکہ کے تعلقات کو مستحکم کرنے میں پیش رفت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن طے شدہ دورے کے تحت اتوار جو بیجنگ پہنچنے والے تھے لیکن غبارے کی نشاندہی کے بعد ان کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔
ریپبلکنز نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس واقعے سے نمٹنے کے طریقے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا غبارے کو پہلے ہی مار گرایا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے صدر پر چین کے ساتھ نرم رویہ اپنانے کا الزام لگایا۔
غبارے نے شمالی امریکہ کے اوپر کئی دن پرواز کی۔ واشنگٹن نے ہفتے کو بتایا کہ ایک ایف 22 لڑاکا طیارے نے اسے جنوبی کیرولینا کے ساحل کے قریب مار گرایا۔
یہ بیجنگ کی جانب سے امریکی خودمختاری کی ’ناقابل قبول خلاف ورزی‘ تھی۔
پینٹاگون کے حکام نے جمعے کو غبارے کو ’انتہائی اونچائی پر نگران غبارہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن نے اسے حساس معلومات جمع کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
شمالی امریکہ میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل گلین وان ہرک نے اتوار کو ایک بیان میں کہا بحریہ کے اہلکار ’فی الحال بحالی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، جس میں امریکی کوسٹ گارڈ علاقے کو محفوظ بنانے اور عوامی تحفظ کو برقرار رکھنے میں مدد کر رہا ہے۔‘
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک رہنما چک شومر کا کہنا تھا کہ ’لڑاکا طیارے کے ذریعے غبارے کو مار گرانا نہ صرف سب سے محفوظ آپشن تھا بلکہ یہ وہ آپشن تھا جس سے ہمیں زیادہ سے زیادہ انٹیلی جنس فوائد ملے۔‘
اس کی وجہ یہ تھی کہ غبارے پر موجود کوئی بھی آلہ پانی میں گرنے سے بچ سکتا تھا۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا ’ہم نے چین کو واضح پیغام دیا ہے کہ یہ ناقابل قبول ہے۔ ہم نے شہریوں کو بچایا۔ ہم نے اپنی حساس معلومات کی حفاظت کرتے ہوئے زیادہ انٹیلی جنس حاصل کی۔‘
انہوں نے کہا کہ پوری سینیٹ کو 15 فروری کو خفیہ بریفنگ دی جائے گی۔
اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ مائیک مولن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ان کے خیال میں چینی فوج میں موجود عناصر نے اینٹنی بلنکن کے دورے میں خلل ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر غبارے چھوڑے ہوں گے۔
انہوں نے جواب دیا، ’واضح طور پر، مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہی ہے۔‘
مائیک مولن چین کی راستے سے ہٹ جانے والی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس غبارے کا راستہ تبدیل کیا جا سکتا تھا۔
’اس پر پروپیلر لگے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ یہ انٹیلی جنس تھی۔‘
اینٹنی بلنکن کا یہ دورہ 2018 میں مائیک پومپیو کے بعد کسی امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے چین کا پہلا دورہ ہوسکتا تھا۔
اس دورے کا اعلان نومبر میں بالی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ایک غیر معمولی ملاقات کے بعد کیا گیا تھا۔
اینٹنی بلنکن کا دورہ منسوخ کرنے کے اعلان سے چند لمحے قبل چین نے اس واقعے پر ایک معافی نامہ جاری کیا تھا۔
امریکی وزیر کی جانب سے دورے کی منسوخی کے اعلان کے ساتھ ہی غبارے کو مار گرایا گیا اور چین کے بیانات کا لہجہ معذرت خواہانہ سے غصے میں بدل گیا۔
چین نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے متنبہ کیا کہ بیجنگ ’مزید ضروری ردعمل دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیجنگ کے رہائشی 23 سالہ لی یز نے کہا ان کے خیال میں ’واشنگٹن کی جانب سے غبارے کو مار گرانے کا فیصلہ امریکہ کے لیے اپنی فوجی طاقت دکھانے کا ایک طریقہ ہے۔‘
لی نے مزید کہا ’میرے خیال میں اگر امریکہ کی جگہ چین ہوتا اور اس کے علاقے میں فضائی نگرانی ہوتی تو چین بھی اس کے ساتھ سختی سے نمٹتا۔‘
پینٹاگون نے جمعے کو کہا کہ لاطینی امریکہ میں ایک اور چینی جاسوس غبارہ دیکھا گیا ہے۔
کولمبیا کی فضائیہ نے ہفتے کے آخر میں اطلاع دی کہ ’غبارے سے ملتی جلتی خصوصیات‘ والی ایک چیز کا پتہ لگایا گیا اور ’قومی فضائی حدود سے نکلنے تک اس کی نگرانی کی گئی۔‘
امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ وہ دیگر ممالک اور اداروں کے ساتھ مل کر تحقیقات کر رہی ہے تاکہ اس چیز کی اصلیت کا تعین کیا جاسکے۔
امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کو اس واقعے سے نمٹنے کے طریقہ کار پر ریپبلکنز کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سینیٹ کے ریپبلکن رہنما مچ میک کونل نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ’ہمیشہ کی طرح جب قومی دفاع اور خارجہ پالیسی کی بات آتی ہے تو بائیڈن انتظامیہ نے پہلے فیصلہ کرنے میں دیر کی اور پھر بہت دیر سے ردعمل ظاہر کیا۔
’ہمیں عوامی جمہوریہ چین کو اپنی فضائی حدود کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔‘