خیبر پختونخوا: دہشت گردی کے خلاف عوامی احتجاج

خیبر پختون خوا میں گذشتہ سال کے وسط میں شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر کے خلاف صوبے کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا اظہار اولسی پاسون کے احتجاج کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

اولسی پاسون کے زیر اہتمام اتوار کو بنوں میں احتجاجی مظاہرے کا منظر (مصطفیٰ چمتو)

صوبہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کے واقعات اور امن و امان کی غیر تسلی بخش صورت حال کے خلاف عوامی سطح کا احتجاج بھی زور پکڑ رہا ہے۔

ملک کے شمال مغربی صوبے میں دہشت گردی کی نئی لہر کے ساتھ ہی ’اولسی پاسون‘ یا عوامی احتجاج کے نام سے ایک تحریک نے بھی جنم لیا، جس میں عام شہری، سماجی کارکن اور سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

اولسی پاسون اب تک صوبہ خیبر پختونخوا میں تقریباً ایک درجن سے زیادہ امن مارچ، مظاہروں، ریلیز اور جلسوں کا انعقاد کر چکا ہے، جن کا ایجنڈا دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات کے علاوہ صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے خلاف احتجاج ہے۔

اولسی پاسون کے زیر اہتمام اسی طرح کا ایک احتجاج اتوار کو بنوں میں ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

احتجاج کا اہتمام بنوں کی عوام، سیاسی و قبائلی عمائدین اور خیبر پختونخوا کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے علاوہ پشتون تحفظ مومومنٹ (پی ٹی ایم)کے رہنماؤں نے کیا۔

دوسرے مطالبات کے علاوہ بنوں کے احتجاج کا مقصد ہر علاقے میں پائے جانے والے قدرتی وسائل پر اس علاقے کی عوام کے حق کے بارے میں آواز بلند کرنا بھی شامل تھا۔

احتجاج میں شریک لطیف وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس اولسی پاسون کا مقصد عام پشتونوں کو اپنے وسائل اور مسائل سےآگاہ کرنا ہے تاکہ ان کو اپنے حق کے لیے بات کرنے کا شعور حاصل کر سکیں۔

’ہم اپنے علاقے میں امن چاہتے ہیں، اور اپنے وسائل پر اختیار کی توقع رکھتے ہیں۔‘

لاپتہ افراد اور قبائلی اضلاع میں بارودی سرنگوں کا شکار ہونے والے افراد کے حقوق کی نمائندگی کرنے والے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عالمزیب خان محسود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اولسی پاسون کا مقصد حکام کو پیغام پہنچانا ہے کہ صوبے کے لوگ دہشت گردی، دہشت گردوں کی پشت پناہی یا ان کی کارروائیوں کے خلاف خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر خاموش نہیں رہیں گے۔

گذشتہ سال پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے بہت سے جنگجوؤں کی واپسی کے بعد جنوبی وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں، اغوا، قتل اور بھتہ خوری میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا، جبکہ سوات اور دیر میں پاکستانی طالبان کی موجودگی سے متعلق سننے میں آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی سطح پر احتجاج گذشتہ سال موسم گرما میں سوات اور دیر کے علاقوں میں شروع ہوا، جب ان علاقوں میں جنگجوؤں کی واپسی سے خوفزدہ عوام نے بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے۔

انہی مظاہروں کے دوران اولسی پاسون نامی تنظیم کا وجود عمل میں آیا، جس کا مقصد دہشت گردی کے واقعات اور امن و امان کی خراب صورت حال کے خلاف احتجاج کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے۔

اتوار کو بنوں میں ہونے والے اولسی پاسون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور سے 197 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بنوں شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے بہت قریب ہے، جہاں سے وقتاً فوقتاً دہشت گردی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

امن و امان کی صورت حال

اسلام آباد میں قائم تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق 2022 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے 260 سے زیادہ دہشت گرد حملوں میں تقریباً 419 افراد ہلاک اور 732 زخمی ہوئے، جو سال 2021 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ تعداد ہے۔

گذشتہ سال چار مارچ کو پشاور کی ایک مسجد میں خود کش حملے کے نتیجے میں 72 اموات ہوئی تھیں جبکہ رواں سال 30 جنوری کو پشاور ہی میں پولیس لائنز مسجد کے خود کش حملے میں 84 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔

ان دو بڑے واقعات کے علاوہ پورے صوبہ خیبر پختونخوا میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور خصوصاً سکیورٹی فورسز پر حملوں کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے 11 فروری کی شام تین دہشت گردوں کو گرفتار کیا، جو لکی مروت سے پشاور ٹارگٹ کلنگ کی غرض سے جا رہے تھے۔

اسی روز بنوں سے 72 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر ایک خودکش حملہ بھی ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان