چولستان جیپ ریلی: تیاری سال بھر کی اور فرق چند سیکنڈز کا

فیصل شادی خیل نے مقررہ فاصلہ تین گھنٹوں، 59 منٹ اور تین سیکنڈز میں طے کیا جبکہ زین محمود صرف چھ سیکنڈز کے فرق سے دوسرے نمبر رہے۔

چھ فروری سے 12 فروری تک ہونے والے اس ایونٹ میں، یوں سمجھیے کہ جنگل میں منگل کا سماں رہا (انڈپینڈنٹ اردو)

جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کے قریب رواں سال کی چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی فیصل شادی خیل نے جیت لی ہے جب کہ زین محمود چوہدری دوسرے نمبر پر رہے۔

چولستان جیپ ریلی میں تیسری پوزیشن آصف فضل چوہدری نے حاصل کی۔

فیصل شادی خیل نے مقررہ فاصلہ تین گھنٹوں، 59 منٹ اور تین سیکنڈز میں طے کیا جبکہ زین محمود صرف چھ سیکنڈز کے فرق سے دوسرے نمبر رہے۔

چولستان کے تاریخی قلعے دراوڑ کے ساتھ ہر سال ہونے والی اس ریلی میں پاکستان بھر کے ریسرز حصہ لیتے ہیں۔ رواں برس بھی ایسا ہی ہوا اور اس جیپ ریلی میں 119 ڈرائیوروں نے مختلف کیٹگریز میں کوالیفائی کیا اور چھوٹی، بڑی، مہنگی، سستی گاڑیاں ریت کے ٹیلوں پر دوڑا کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔

چھ فروری سے 12 فروری تک ہونے والے اس ایونٹ میں، یوں سمجھیے کہ ’جنگل میں منگل‘ کا سماں رہا۔

نہ صرف ریس میں حصہ لینے والے پروفیشنل ڈرائیوروں نے ریسنگ ٹریک پر گاڑیاں دوڑائیں بلکہ شائقین نے بھی اپنی گاڑیوں کو ریت کے ٹیلوں میں خوب آزمائش میں ڈالا۔

مقامی افراد کی خوشی اور جذبہ بھی دیدنی تھا، قریبی دیہاتوں اور شہروں کے نوجوان موٹر سائیکلوں سے دھول اڑاتے رہے۔

ملک بھر کے مختلف شہروں اسلام آباد، بہاولپور، ملتان، رحیم یار خان، مظفر گڑھ اور جنوبی پنجاب کے تقریباً ہر ضلعے سے دکاندار، شائقین اس ایونٹ میں شامل ہوئے۔

چولستان جیپ ریلی کسی کے لیے تفریح کا باعث بنی تو کسی کے لیے معاشی حالات کو سدھارنے کا ذریعہ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ریلی اور میلے میں کئی ٹھیلے والے اور دکاندار چند دنوں کی اچھی دیہاڑیاں لگانے آئے جب کہ شائقین میں سے کسی کو کیمپ لگا کر صحرائی راتوں کا مزہ لینا تھا تو کسی کے لیے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے سالانہ فیسٹیول میں شریک ہو کر مقامی زندگی اور ثقافت کو دیکھنا ہی منفرد تجربہ تھا۔

چولستان جیپ ریلی صحرائے تھر میں سیاحت کے فروغ کا بھی اہم سبب بن جاتی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران ملک بھر کے طول و عرض سے دسیوں ہزار لوگ تاریخی قلعے دراوڑ آئے اور گئے، جو عموماً ویران ہی رہتا ہے۔

اس ریلی کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے روہی جی اٹھا ہے، ہر طرف چہل پہل، بچے، بزرگ، خواتین اور مرد دستیاب سواریوں پر فراٹے بھرتی گاڑیوں کی ریس دیکھنے پہنچے اور اپنے پسندیدہ ریسرز کا مختلف جگہوں پر استقبال کیا۔

جیپ ریلی اور میلہ ختم ہوتے ہی قلعے کے گرد رہنے والوں کی زندگی معمول پر آ جاتی ہے جو دراصل اتنی خوشحال اور چمک دمک والی نہیں ہوتی جتنی ایک ہفتے کے لیے دکھائی دیتی ہے۔

یہاں پاکستان بھر کے سیاح چند دنوں کے لیے آتے تو ہیں جس سے یقیناً مقامی لوگوں کو وقتی طور پر خوشحالی کا احساس ہوتا ہے لیکن چولستان جیپ ریلی کی دھول چھٹتے ہی قلعہ دراوڑ اور صحرا کے باسیوں کی تگ و دو بھری زندگی لوٹ آتی ہے اور تمنائیں اور محرومیاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔

کروڑوں روپے کی فراٹے بھرتی گاڑیوں کو جب بنیادی سہولیات سے محروم شہری دیکھتے ہیں تو یقیناً ان کے دل میں یہ سوال اٹھتے ہیں کہ ’کاش یہاں بھی پینے کا صاف پانی ہو، کاش بچوں کے لیے معیاری سکول اور اعلیٰ تعلیم ہو، سڑکیں ہوں، ترقی ہو اور سارا سال یہاں سیاح آتے رہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل