دراوڑ میلے کی رونقیں اور ’ہوائی روزی‘

چولستان جیپ ریلی کے موقعے پر دراوڑ میں سجنے والے میلے میں دیہاڑی دار طبقہ دور دراز علاقوں سے آکر اضافی آمدنی کے موقعے ڈھونڈتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں ہر سال چولستان جیپ ریلی کے موقعے پر جہاں ریسرز اپنی اپنی جیپیں دوڑانے کے لیے آتے ہیں، وہیں قلعہ دراوڑ کے اطراف سجنے والے میلے میں دیہاڑی دار طبقہ دور دراز علاقوں سے آکر اضافی آمدنی کے موقعے ڈھونڈتا ہے۔

اور صرف جیپ ریلی ہی نہیں، خواجہ فرید کا عرس ہو یا چنن پیر کے دربار کی رونقیں، بہاول نگر، رحیم یار خان، ملتان، لیاقت پور، کوٹ ادو اور بہاولپور جیسے شہروں سے دیہاڑی دار طبقے کے لوگ ایسی تقریبات کا انتظار کرتے ہیں تاکہ کچھ اضافی آمدنی حاصل کرسکیں، جسے وہ ’ہوائی روزی‘ کہتے ہیں۔

ان دنوں قلعہ دراوڑ میں ثقافتی میلہ جاری ہے۔ دس فروری سے شروع ہونے والے اس میلے کا آخری روز ہے۔

اس میلے میں سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لکی ایرانی سرکس، ہاتھوں پر چھاپے بنانے والے، بچوں کے لیے جھولے، بھوت بنگلے جبکہ کھانے پینے کے لیے سینکڑوں ہوٹل اور ڈھابے عارضی طور پر لگائے گئے ہیں۔ اگر اس کو ایک عارضی شہر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔

دراوڑ میلے میں کوٹ ادو سے آئے ہوئے محمد رفیق نے بتایا کہ وہ لکی ایرانی سرکس میں جوکر کا روپ دھار کر مختلف شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شائقین کے چہروں پرمسکراہٹ بکھیرتے ہیں۔

کوٹ ادو سے قلعہ دراوڑ کا فاصلہ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر ہے لیکن محمد رفیق کچھ اضافی رقم کمانے کے لیے یہاں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں کوٹ ادو میں دن کا پانچ سو روپے کماتا تھا جبکہ یہاں آ کر تقریباً آٹھ سو روپے تک کمائی ہو جاتی ہے۔‘

اسی میلے میں محمد آصف نے بھی اپنا ڈھابہ لگا رکھا ہے، جہاں وہ دال چاول اور چائے بیچتے ہیں۔ انہوں نے سیاحوں کی موٹر سائیکلوں کی پارکنگ کا بندو بست بھی کر رکھا ہے، وہ دس سے 20 روپے کے عوض سیاحوں کی سواریوں کا خیال رکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد آصف نے بتایا کہ وہ ہر سال احمد پور شرقیہ سے اس میلے میں آتے ہیں، جس سے ان کے لیے معاشی طور پر چار دن کی آسانی میسر آ جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ہم سال بھر میں اتنی روزی نہیں کماتے جتنی ان تین دنوں میں کما لیتے ہیں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور اللہ کی طرف سے یہ رزق مل جاتا ہے۔ یہاں آنے سے سات سے آٹھ دن بچوں کی روٹی پانی پورا ہو جاتا ہے۔‘

ان میلوں سے جہاں دور دراز کے علاقوں سے آئے لوگوں کو اضافی ذریعہ معاش میسر آتا ہے، وہیں یہاں کا مقامی کاروباری طبقہ بھی خوب فائدہ حاصل کرتا ہے۔

دراوڑ میں ایک کریانے کی دکان کے مالک محمد ارسلان نے بتایا: ’ہمیں باہر سے آنے والے بیوپاریوں سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم یہاں بہت عرصے سے اپنی دکان کھول کر بیٹھے ہیں اور لوگ ہمیں یہاں جانتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ریلی کے دنوں میں ہماری دکان دن رات کھلی رہتی ہے اور کمائی بھی اچھی ہوتی ہے جبکہ عام دنوں میں ہم رات آٹھ بجے دکان بند کر دیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان