پینٹ میں سیسے کی خطرناک حد کا انکشاف، دوبارہ تحقیق کا مطالبہ

لیڈ ایکسپوژر ایلیمینیشن پراجیکٹ نے ایک تحقیق میں پاکستان میں عمارتوں پر ہونے والےپینٹ میں سیسے کی خطرناک حد کے باعث بچوں کی صحت کو خطرات کا انکشاف کیا تھا،تاہم پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نے اسے رد کرکے دوبارہ تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔

چار جولائی 2021 کو کراچی میں مقامی میونسپل کارپوریشن کے زیر اہتمام ’رنگ دے کراچی‘ بیوٹیفکیشن پراجیکٹ کے دوران فنکار نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کے باہر دیوار کو پینٹ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں خوردنی اور روزمرہ کی اشیا کے معیار کو پرکھنے والے سرکاری ادارے پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) نے ایک حالیہ تحقیق کو مسترد کر دیا کہ پاکستان میں عمارتوں پر کیے جانے والے پینٹس میں سیسے کی مقدار مقررہ حد 40 فیصد سے زائد ہے اور ساتھ ہی ادارے نے دوبارہ تحقیق کا مشورہ دیا ہے۔

پی ایس کیو سی اے نے پاکستان میں دستیاب پینٹس میں سے 40 فیصد میں سیسے کی مقدار حد سے زیادہ ہونے سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم کی تحقیق کو رد کرتے ہوئے کہا ہے یہ تحقیق پی ایس کیو سی اے کے معیار کے مطابق نہیں کی گئی ہے، اس لیے اس کو دوبارہ کیا جائے۔ 

اس کے بعد تحقیق کی رپورٹ جاری کرنے والے ادارے لیڈ ایکسپوژر ایلیمینیشن پراجیکٹ (لیپ) نے پی ایس کیو سی اے کے معیار کو مانتے ہوئے دوبارہ تحقیق کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پی ایس کیو سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر (کیمیکل) خواجہ غلام محی الدین نے کہا: ’یہ تحقیق پرانی ہے جسے نیا کر کے پیش کیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں پی ایس کیو سی اے کے معیارات کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی پی ایس کیو سی اے کو اس تحقیق میں شامل کیا گیا تھا، اس لیے اس تحقیق کو دوبارہ کیا جائے۔ ‘

خواجہ غلام محی الدین کے مطابق: ’یہ تحقیق 2021 میں کی گئی، اب 2023 ہے۔ ان دو سالوں کے دوران بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ہم نے تحقیق جاری کرنے والے ادارے کو آن لائن میٹنگ کر کے اپنے خدشات بتائے ہیں، جن کو مانا گیا اور جلد ہی دوبارہ یہ تحقیق کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔‘

لیپ کی تحقیق میں کیا بتایا گیا تھا؟

لیڈ ایکسپوژر ایلیمینیشن پراجیکٹ (لیپ) نامی عالمی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے جاری تحقیق پاکستان میں عمارتوں کو رنگنے کے لیے استعمال کیے جانے والے آئل پینٹس میں سیسے کی خطرناک حد کے باعث بچوں کی صحت کو سنگین خطرہ ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔

یہ پراجیکٹ دنیا بھر میں پینٹ میں سیسے کی خطرناک مقدار کی انسداد کے عالمی ادارہ صحت کے گروپ کا رکن اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پرگرام کا رکن بھی ہے، جو سیسے کے زہر کو بچوں سے دور کرنے اور دنیا بھر میں بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کا کام کرتا ہے۔ 

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ’پینٹ اور دیگر ذرائع سے سیسے کا زہر پاکستان میں چار کروڑ 70 لاکھ بچوں کو متاثر کررہا ہے جبکہ ملک کو ہر سال 38 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔‘

پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نے 2017 میں پینٹ میں سیسے کی مقدار کی پالیسی جاری کی تھی، جس کے مطابق پینٹ بنانے والی کمپنیاں پینٹ کے 10 لاکھ حصوں میں صرف 100 حصے سیسے کے رکھ سکتی ہیں۔ تحقیق کے دوران کچھ پینٹس میں یہ سطح مقررہ مقدار سے 1000 گنا زیادہ پائی گئی اور کچھ پینٹس میں سیسے کی انتہائی زیادہ مقدار کے باوجود پیکٹ پر ’سیسے سے پاک‘ لکھا دیکھا گیا۔ 

خواجہ غلام محی الدین کے مطابق: ’2017 میں ہم نے پینٹ میں سیسے کی مقدار والی پالیسی متعارف کراتے ہوئے پینٹ کمپنیوں کو ہدایت بھی جاری کی تھی، جن میں سے بہت سی کمپنیوں نے اس پر عمل درآمد بھی کیا تھا۔ اس لیے اس تحقیق کو پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے معیار کے مطابق کرنا ضروری ہے، تاکہ نتائج بہتر نکل سکیں۔‘

اس پر ردعمل دیتے ہوئے لیپ پراجیکٹ کے مینیجر چارلی لاؤڈن نے کہا: ’لیپ بخوشی یہ آزاد تحقیق سرکار کے ساتھ شیئر کرسکتی ہے۔ اس طرح کی تحقیق مسئلے کی موجودگی کے لیے کارآمد ہوتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے پاس شاندار معیار ہیں اور اپنے طور پر ٹیسٹ کرکے، ان معیارات کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ ہم اتھارٹی کے ساتھ کام کرنے کی امید کرتے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تحقیق 2021 میں کی گئی تھی؟ اس سوال کے جواب میں چارلی لاؤڈن نے کہا: ’ہاں، جیسے اس تحقیق کا آغاز ہوا تو ابتدائی نمونے نومبر 2021 میں لیے گئے تھے۔‘

پینٹ میں آخر سیسا ملایا ہی کیوں جاتا ہے؟ 

چارلی لاؤڈن کے مطابق پینٹ میں سیسا ملانا ضروری نہیں ہوتا، مگر کمپنیاں پینٹ میں سیسا رنگ کو بہتر کرنے، رنگنے کے بعد پینٹ کو جلد سکھانے اور دیرپا تازہ رکھنے کے لیے سیسے کا استعمال کرتی ہیں جبکہ سیسے کا متبادل موجود ہے اور پاکستان میں کئی کمپنیاں پہلے سے وہ متبادل استعمال کررہی ہیں۔ 

آغا خان یونیورسٹی میں کمیونٹی ہیلتھ سائنسز شعبے کے پروفیسر آف انوائرمینٹل ہیلتھ اینڈ کلائمیٹ چینج ڈاکٹر ظفر فاطمی نے انڈپینڈنٹ اردو بتایا کہ پینٹ کمپنیاں سستے میں بہتر رنگ کے پینٹ بنانے کے چکر میں سیسے کا استعمال کرتی ہیں۔

’سیسے کا متبادل موجود ہے، مگر وہ مہنگا ہے اور پیسے بنانے کے لیے سستا سیسا ملانے والی کمپنیاں مہنگا متبادل کیوں ملائیں گی؟‘

ڈاکٹر ظفر فاطمی کے مطابق: ’خاص طور پر لال اور پیلے رنگ والے پینٹ اور حتیٰ کہ کھانے کی اشیا جیسے ہلدی وغیرہ میں رنگ کو تیز کرنے کے لیے سیسا ملایا جاتا ہے۔ پینٹ میں سیسے کی ملاوٹ سے گھر کے اندر پیدا ہونے والی ہاؤس ڈسٹ کم سن بچوں کی ذہنی نشونما کو روک دیتی ہے۔

’نہ صرف چھوٹے بچوں پر بلکہ ماں کے پیٹ میں موجود بچوں پر بھی سیسا منفی اثرات مرتب کرتا ہے، اس لیے ترقی یافتہ ممالک میں کئی دہائیاں پہلے پینٹ میں سیسے کی ملاوٹ پر مکمل پابندی عائد کی گئی۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت