دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست پیچیدہ اور دلچسپ ہے۔ 

جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے مہمند دھڑے (جماعت الاحرار) نے قبول کی تھی۔ تاہم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے دوری اختیار کی (اے ایف پی)

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست پیچیدہ اور دلچسپ ہے۔ 

کبھی کبھار خطے میں ایسے پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی اور بسا اوقات دو سے زیادہ گروہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

یہاں ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں ایک دھڑا حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کرتا ہے تو دوسری طرف اس گروہ کے مرکزی ذمہ داران اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔  

19 فروری کو پاکستان سے تعلق رکھنے  والے ایک عالم مولانا اعجاز احمد حقانی کو پشاور کے مضافات میں قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی ذمہ داری کسی بھی گروہ کی طرف سے سامنے نہیں آئی۔

اسی طرح ماضی کی دو قلیل المدتی جنگ بندیوں یعنی نومبر 2021 اور جون - نومبر 2022 کے دوران اس طرح کے واقعات دیکھے گئے جب خودکش حملوں سمیت متعدد پرتشدد واقعات کی ذمہ داریوں کی قبولیت سامنے نہیں آئی۔

جیسا کہ نومبر 2022 میں جنوبی وزیرستان میں امن کمیٹی کے ایک رکن کو دیسی ساختہ بم حملے میں نشانہ بنایا گیا، جس کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔

مئی 2020 میں کابل کے ایک ہسپتال میں شدید فائرنگ اور بم حملوں کی ذمہ داری بھی کسی گروہ کی جانب سے سامنے نہیں آئی۔

البتہ افغان حکومت اور امریکہ نے داعش خراسان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔

ایک ہی گروپ کے اندر قبول کرنے اور نہ کرنے کی مثالیں بھی ہیں۔ اس تناظر میں جنوری 2023 میں پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والا ایک خودکش بم دھماکہ اہم ہے، جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مہمند دھڑے نے، جسے جماعت الاحرار (جے یو اے) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا یہ حملہ گذشتہ سال سات اگست کو افغانستان میں اس کے رہنما عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے ہے۔

تاہم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اسے اپنے گروہ کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حملے میں ملوث ہونے سے دوری اختیار کی۔

ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں ایک سے زیادہ گروہوں نے ایک ہی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہو۔ دسمبر 2020 میں اسلامک سٹیٹ آف پاکستان صوبہ (ISPP) اور ٹی ٹی پی دونوں نے راولپنڈی میں ایک بم حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

2022 میں ہونے والے ایک اور واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے متعلق دونوں تنظیموں  نے دعوے کیے۔

اکتوبر 2022 میں، ٹی ٹی پی اور آئی ایس پی پی دونوں نے کراچی میں ہلاک ہونے والے دو جنگجؤں کے حوالے سے بیان جاری کرتے اپنی اپنی تنظیموں سے تعلق کا دعویٰ کیا۔

یہاں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جب دہشت گرد گروہ بعض حملوں کا دعویٰ کرنے کے بعد اپنے بیانات کے حوالوں سے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے۔

مثال کے طور پر 21 اپریل، 2021 کو کوئٹہ میں موجود چین کے سفیر نونگ رونگ پر سرینا ہوٹل میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں بال بال بچ گئے۔

ابتدائی طور پر بیان جاری کرتے ہوئے ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اصل ہدف غیرملکی تھے۔

تاہم بعد میں ٹی ٹی پی نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ اس حملے کا اصل ہدف نونگ کو قرار دیا جاتا رہا ہے اور کہا جاتا رہا کہ ٹی ٹی پی نے چین کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔

لیکن اپنے ابتدائی دعوؤں کے نتائج کو جانچنے کے بعد پاکستان فوج اور چین کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف سخت ردعمل سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی نے ایک جوابی بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ چینی سفیر ہدف نہیں تھے۔

2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام کے بعد ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 

تاہم گذشتہ سال اس کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس قتل عام کے اصل مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔

پاکستان اور افغانستان میں بعض حملوں کا دعویٰ قبول نہ کرنے کی سیاست کے پیچھے تین محرکات ہیں۔

سب سے اہم عنصر دہشت گردانہ حملے اور گروپ کے سٹریٹجک مقاصد کے درمیان ہیں اگر یہ حملہ کسی دہشت گرد گروپ کے مقاصد کے مطابق نہیں تو وہ اس کا دعویٰ نہیں کرتے۔

ٹی ٹی پی نے پشاور میں پولیس لائنز مسجد میں خودکش حملے سے خود کو دور کرتے ہوئے اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا ٹی ٹی پی اپنے جنگجوؤں کو مساجد میں حملے کرنے سے منع کرتی ہے۔ اس کے باوجود کہ ہدف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جبکہ اس کے برعکس داعش خراسان مساجد میں اپنے اہداف کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔

دوسرا عنصر دہشت گرد گروپوں میں غیر ارادی نتائج کے سبب سخت ردعمل کا خوف ہے جیسا کہ کوئٹہ میں سرینا ہوٹل پر حملے میں ٹی ٹی پی کی اپنی جاری بیان سے پسپائی تھی۔

 تیسرا اور آخری عنصر، جو دہشت گرد گروہوں کا اپنے کارروائیوں سے دوری واضع کرتا ہے وہ اصولی عنصر ہے۔

افغان یا پاکستانی طالبان کو ان کے مرکزی ڈھانچے کے ساتھ نیٹ ورکس کے ساتھ نیٹ ورک کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک غیر مرکزی گروپ میں ہر دھڑا زیادہ سے زیادہ خود مختاری سے اپنے اہداف کا انتخاب کرتا ہے۔ 

بعض اوقات کسی گروپ کی مرکزی قیادت اور اس کے دھڑوں کے درمیان رابطے کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔ 

تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر جڑے دھڑے سٹریٹجک مقصد سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیع دیتے ہیں۔

اور جس سے وہ ہٹ مین بن جاتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جیسے اغوا برائے تاوان یا رقم لے کر قتل کرنے کے حوالے سے ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی گروپ کے دھڑے ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جو کسی گروپ کے دائرہ کار سے باہر ہو یا جن کو مرکزی رہنماؤں کی منظوری حاصل نہ ہو اور جن کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی۔

اس کے برعکس ٹی ٹی پی اور داعش پاکستان جیسے دو گروہوں کے ایک ہی حملے کے متعدد دعوے موقع پرستی کو ظاہر کرتے ہیں۔

زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے گروہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں ہوتے۔

ایسی صورتوں میں عسکریت پسند ایک سے زیادہ گروہوں کے لیے فری لانس شدت پسندوں کے طور پر کام کرتے ہیں اور ان کے ذریعے کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں متعدد ذمہ داری کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ 

ممکنہ طور پر راولپنڈی میں زیر بحث حملوں کا دعویٰ ٹی ٹی پی اور آئی ایس پی پی دونوں نے کیا ہے اور ساتھ ہی کراچی میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں سے متعلق بیانات ایک سے زیادہ تنظیموں سے متعلق تعلق رکھنے کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے خطے میں دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست اس کے منظر نامے کی پیچیدگی، وسیع اور ہمیشہ سے ابھرتی ہوئی نوعیتوں اور دہشت گرد گروہوں کی موقع پرستانہ رویے کے بارے میں ہماری علم میں اضافہ کرتے ہیں۔

یہ نہ صرف بیان کردہ نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے عسکریت پسندانہ مہمات میں مصروف ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ کرائے کے قاتلوں کے طور پر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔

آخر میں، یہ پاکستانی اور افغان طالبان جیسے بڑے پیمانے پر شدت پسند نیٹ ورکس کے سرکردہ رہنماؤں اور جنگجوؤں کے درمیان رابطے کی دوری کو بھی واضع کرتا ہے۔ 

ان کا اگر صحیح سے تجزیہ کیا جائے تو دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی واضع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مصنف سنگاپور میں بطور محقق کام کرتے ہیں۔ یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ