پی ٹی آئی کے ’ڈنڈا بردار‘ کارکن کہاں سے آئے؟

مختلف کارکنان کے انٹرویوز کے بعد یہ معلوم ہوا کہ بیشتر ڈنڈا بردار نوجوان خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق لاہور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کو روکنے میں شریک بیشتر کارکنان کا تعلق لاہور سے نہیں تھا بلکہ وہ دیگر شہروں سے وہاں آئے تھے یا پھر لائے گئے تھے۔

عمران خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن دو دن تک جاری رہا تھا۔

گرفتاری کا آپریشن اس وقت شروع ہوا جب منگل کو دن 11 بجے اسلام آباد کے ڈی آئی جی آپریشن شہزاد بخاری توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری لے کر زمان پارک پہنچے۔

ان کے ساتھ پنجاب پولیس کی بھاری نفری بھی تھی لیکن پی ٹی آئی کے پہلے سے موجود کارکنوں کی بڑی تعداد نے پولیس کو زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ میں داخل نہیں ہونے دیا۔

پولیس کی شیلنگ سے متعدد کارکن زخمی بھی ہوئے جبکہ کارکنوں نے بھی پولیس پر پرپتھراؤ کیا اور ڈنڈے برسائے جس کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔

حالات کشیدہ ہونے پر رینجرز کو طلب کیا گیا، مگر پھر بھی عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نرم مزاج نوجوانوں پر مشتمل تنظیم اتنی سخت گیر کیسے ہو گئی کہ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو چیلنج کر دیا؟

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی پی ٹی آئی کارکنان کو کیسے منظم کیا جا رہا ہے۔

مختلف کارکنان کے انٹرویوز کے بعد یہ معلوم ہوا کہ بیشتر ڈنڈا بردار نوجوان خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ زمان پارک لاہور اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی موجود رہے مگر زیادہ تعداد دوسرے علاقوں سے یہاں لائے گئے کارکنوں کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذوالفقار احمد کا تعلق ضلع شیخوپورہ سے ہے اور وہ برطانیہ سے خاص طور پر لاہور آئے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مشکلات تو ہیں لیکن اپنے ملک اور آزادی کے لیے مشکلات تو برداشت کرنی پڑیں گی۔‘

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تاج محمد نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایم این اے گل ظفر کی قیادت میں وہاں سے لاہور آئے ہیں۔

’تقریباً چار پانچ سو آدمی ہیں اور ادھر ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ خان صاحب کے بہت احسانات ہیں، ہیلتھ کارڈ دیا تھا، اپنے بیٹے کا علاج کرایا، جب سے میں خان صاحب کا دیوانہ بن گیا۔‘

نوجوان لڑکے اور لڑکیاں عمران خان کا تحفظ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہنے کا دعوی کرتے رہے ہیں۔

ایک نوجوان خاتون بھی ہاتھ میں ڈنڈا تھامے ’پہرہ‘ دے رہی تھیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا نام رملہ ہے اور میں راجن پور سے آئی ہوں۔ ہم تین چار دن سے یہیں ہیں۔ ہم تین بہنیں آئی ہیں اور ہم نے یہاں گھر کرائے پر لیا ہوا ہے اور وہیں رہ رہی ہیں۔‘

وہ کب تک لاہور میں رہیں گی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جب ہمیں لگے گا کہ ہمارے خان محفوظ ہیں اور جب تک پر امن طریقے سے ووٹنگ نہیں ہو جاتی جب تک ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔‘

ایک اور ڈنڈا بردار نوجوان حافظ احمد پنجاب کے ضلع وہاڑی سے لاہور زمان پارک پہنچے تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں مزدوری کرتا ہوں اور عمران خان کے لیے یہاں آیا ہوں۔ پیچھے بھی گزارہ ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہو گا لیکن عمران خان کی خاطر یہاں رہیں گے۔‘

لکی مروت سے تعلق رکھنے والے صدام عباس شاہ نے بھی ڈنڈا تھاما ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے زمان پارک کے باہر ’ڈیوٹی‘ کر رہے ہیں، انہیں لاہور میں دو ہفتے ہو گئے ہیں۔

’لکی مروت سے دو تین ہزار مخلوق یہاں قافلے کی صورت میں آئی ہوئی ہے۔ ہمارے سینے بھی حاضر ہیں اور ہم بھی، یہ ہم سے عمران خان نہیں لے سکیں گے، ہمیں مار دیں پھر خان کو لے جائیں لیکن زندہ ہوتے ہوئے کوئی خان کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔‘

ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں بڑی تعداد میں زمان پارک لایا گیا ہے جہاں وہ ڈنڈوں کے ساتھ موجود ہیں۔

عمران خان کی گرفتاری کے لیے کئی اضلاع سے طلب کی جانے والی پولیس کی نفری اور رینجرز نے بھر پور کوشش کی مگر کامیابی نہیں مل سکی۔

دو دن اور ایک رات جاری رہنے والے آپریشن کے دوران کارکن شیلنگ اور لاٹھی چارج سے کئی بار پیچھے ہٹے اور دوبارہ واپس آ گئے۔

وقفے وقفے سے پولیس اور کارکنوں میں ٹکراؤ سے دو دن حالات کشیدہ رہے لیکن ڈنڈا بردار کارکنوں نے آخری وقت تک ہار نہیں مانی۔

جب لاہور ہائی کورٹ نے جمعرات کی صبح تک آپریشن روکنے کا حکم دیا تو ان ڈنڈا بردار کارکنوں نے فاتحانہ انداز میں زمان پارک ریلی نکالی اور جشن منایا۔

ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی صورت عمران خان کو گرفتار کرنے نہیں دیں گے۔ دوسری جانب عمران خان نے بھی گھر میں شیلنگ کے باوجود باہر نکل کر کارکنوں سے ملاقات کی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست