پی ٹی آئی تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کا جتھہ ہے: حکومتی اتحاد

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومت میں شامل جماعتوں کا اجلاس تقریباً چھ گھنٹے تک جاری رہا، جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

پیر کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومت میں شامل جماعتوں کا اجلاس ہوا (فائل فوٹو/ شہباز شریف/فیس بک)

پاکستان کے وزریراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پیر کو ہوئے اجلاس میں بدھ (22 مارچ) کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومت میں شامل جماعتوں کا اجلاس تقریباً چھ گھنٹے تک جاری رہا، جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

اجلاس میں ملک کی معاشی و سیاسی، داخلی و خارجی، امن و امان کی مجموعی صورت حال پر غور کیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں طے پایا ہے کہ 22 مارچ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ریاستی عمل داری یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔

جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق اجلاس میں شریک جماعتوں نے ’عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے والی پولیس اور رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد‘ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’پٹرول بم، ڈنڈوں، غلیلوں، اسلحہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک ہے۔‘

حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ ’یہ ریاست دشمنی ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘

’ریاست کے مقابلے میں ہتھیار اٹھانا، ان کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بنانا، ان پر گولی چلانا، گاڑیاں جلانا، عدالتی احاطوں کا محاصرہ کرنا، قانونی ڈیوٹی ادا کرنے والے پولیس اہلکاروں کو راستے میں روک کر تشدد کا نشانہ بنانا لاقانونیت کی انتہا ہے جسے کوئی بھی ریاست برداشت نہیں کرسکتی۔‘

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں شریک جماعتوں کا کہنا تھا کہ ’پوری قوم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کا جتھہ ہے جس کے تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ لہذا قانون کے مطابق اس ضمن میں کارروائی کی جائے۔‘

اس کے علاوہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’نظام عدل کے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک سے ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے کا تاثر مزید گہرا ہو رہا ہے جو ملک میں آئین، قانون اور عدل کے اصولوں کے لیے نیک فال نہیں۔‘

’ایک ملک میں انصاف کے دو الگ معیار قابل قبول نہیں۔‘

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں جوڈیشل کمیشن پر حملے میں پولیس افسران اور اہلکاروں کو زخمی کرنے، املاک کی توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے پیر کو اپنے ایک تازہ بیان میں دعویٰ کیا کہ مبینہ طور پر جوڈیشل کملپیکس میں موجود ’نامعلوم‘ افراد انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے یوٹیوب چینل پر خطاب کرتے ہوئے کہا ’اس حکومت نے میرے ساتھ جو کیا وہ اس سے پہلے کسی کے ساتھ نہیں کیا گیا۔

’میں جب ہفتے کو گھر سے نکلا تو بشریٰ بیگم کو خدا حافظ کہہ کر نکلا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ یا میں جیل میں جاؤں گا اور یا مجھے قتل کیا جائے گا۔‘

اپنے خطاب کے آغاز میں عمران خان نے کہا کہ وہ ایک ویڈیو دکھانا چاہتے ہیں۔

ویڈیو میں جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے موجود سکیورٹی اہلکاروں سمیت چند دیگر افراد کو دکھایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ ’اسلام آباد ٹول پلازہ سے نکلا تو پیچھے لوگوں کو روک دیا گیا تاکہ عمران خان کی گاڑی تنہا رہ جائے۔

’ٹول پلازہ سے جوڈیشل کمپلیکس تک پہنچنے میں مجھے ساڑھے چار گھنٹے لگے۔‘

انہوں نے الزام لگایا کہ ’میں جوڈیشل کمپلیکس کے دروازے پر 40 منٹ کھڑا رہا اور اوپر سے پولیس پتھراؤ اور شیلنگ کرتی رہی۔‘

’جیسے ہی میں نے جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سامنے پولیس، رینجرز کے ساتھ شلوار قمیص میں نامعلوم افراد بھی تھے۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں واپس جانے کا اشارہ کیا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ یہ ایک ٹریپ تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کارکنان اشتعال نہیں بلکہ صرف انتخابات چاہتے ہیں۔‘

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’یہ سب پی ٹی آئی اور فوج کو لڑانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘

’میں واضح کر دوں کہ فوج بھی میری ہے اور یہ ملک بھی میرا ہے۔‘


بہت جلد اپنے قتل کی سازش بے نقاب کرنے جا رہا ہوں: عمران خان

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد ان کو اسلام آباد کے جوڈٰشل کمپلیکس میں قتل کرنے کی مبینہ سازش کو بے نقاب کرنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے ٹویٹ میں مزید لکھا کہ وہ یہ بھی بتائیں گے کہ کیسے اللہ نے انہیں آخری موقعے پر محفوظ رکھا۔


شہباز شریف کے بیان کا مقصد ’عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنا ہے:‘ فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان کا مقصد ’عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنا ہے۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے آج ایک بیان میں فوج اور آرمی چیف کے خلاف بیرون ملک مہم کی مذمت کرتے کہا تھا کہ ’عمران خان اداروں اور ان کے سربراہوں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں۔‘

فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’اس بیان کا مقصد صرف عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنا ہے، تاکہ عوام اور فوج متحارب ہوں اور PDM اس آڑ میں لوٹ مار جاری رکھ سکیں۔

’تحریک انصاف موجودہ آرمی چیف کیلئے نیک خواہشات رکھتی ہے ہم چاھتے ہیں چیف الیکشن کروانے میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں اور پاکستان کا ماحول بہتر ہو۔‘


فوج اور آرمی چیف کے خلاف بیرون ملک مہم ناقابل قبول: وزیر اعظم

وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کو فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بیرون ملک مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کے خلاف مہم ناقابل برداشت اور اداروں کے خلاف سازش کا تسلسل ہے۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے زہریلی سیاست کو پھیلا جا رہا ہے۔

بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی اس سازش کا حصہ نہ بنیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اداروں اور ان کے سربراہوں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وزیر داخلہ ملک کے اندر اداروں کے خلاف غلیظ مہم چلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔

’پاکستان میں افراتفری، فساد اور بغاوت کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘

بیان کے مطابق: میرٹ پر تعینات ہونے والے آرمی چیف کے خلاف مہم ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے۔ ’قوم اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور شرپسندوں کے خلاف متحد ہے۔‘


پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ لاہور کے علاقے زمان پارک میں کشیدگی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف سات ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور ان میں نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پیر کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اسلام آباد پولیس ان کی جماعت کے رہنماؤں کو گرفتار کر رہی ہے۔ 

عمران خان نے لکھا تھا: ’اسلام آباد میں فسطاعیت اپنے عروج پر ہے، جہاں پولیس ہمارے کارکنوں کو پکڑنے کے لیے بغیر وارنٹس گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔ جہاں کارکن گھروں میں موجود نہیں وہاں دس برس تک کے کم سن بچوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ ہمارے وہ تمام کارکن اور ان کے بچے فوراً رہا کیے جائیں جنہیں اغوا کیا جا چکا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ لاہور میں بھی جاری ہے، جسے پی ٹی آئی رہنما بدھ (22 مارچ) کو مینار پاکستان پر ہونے والا جلسہ قرار دے رہے ہیں۔

سینیئر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی سے گفتگو میں بتایا کہ ’اس وقت تک تحریک انصاف کے  285 کے قریب کارکنان اسلام آباد اور لاہور پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ دونوں شہروں میں موجود ہماری مرکزی قیادت کے گھروں میں چھاپے جاری ہیں۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’پی ٹی آئی نے بدھ کو لاہور میں جلسے کی اجازت مانگی تو نگران حکومت نے غیر قانونی چھاپے اور گرفتاریاں شروع کردی ہیں۔ ریلی نکالنے لگیں تو شہر میں دفعہ 144 لگا دی جاتی ہے۔ عدالت حاضری پر میدان جنگ بنا دیا جاتا ہے اس فاشسٹ نگران حکومت کے خلاف الیکشن کمشن نوٹس لے اور فوری ہٹایا جائے۔‘

پی ٹی آئی پنجاب کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رات گئے پولیس ان کے گھر دندناتے ہوئے داخل ہوئی اور جب ان  سے وارنٹ کا پوچھا گیا تو وہ دروازے پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہو گئے۔‘

مسرت چیمہ کے مطابق وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھیں البتہ ان کی چھوٹی بہن اور بچے گھر پر تھے، جنہیں پولیس نے ہراساں کیا۔ 

ان کے مطابق ان کے گھر آنے والی ٹیم میں ایس ایس پی جیپ، چھ ویگو گاڑیاں اور چار موٹر سائیکلیں شامل تھیں جبکہ ایس ایس پی خود اس چھاپے کی قیادت کر رہے تھے۔

مسرت چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے گھر کے کمروں کے دروازے توڑ دیے گئے، سارے سی سی ٹی وی کیمرے توڑے گئے، گھر میں ایک سیفٹی سسٹم لگا تھا اسے بھی توڑ دیا گیا جبکہ پولیس والے گھر کے ملازمین، ڈرائیور اور گارڈ کو حراست میں لے کر اپنے ساتھ لے گئی۔

جب تک سب پکڑے نہیں جائیں گے تب تک چھاپے جاری رہیں گے: سی سی پی او

سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ان کے خلاف کیس رجسٹر ہوئے ہیں۔ انہوں نے زمان پارک کے باہر پولیس کو مارا ہے۔ ان کی گاڑیاں توڑی ہیں، لہذا ان کے خلاف ایف آئی آرز کٹی ہوئی ہیں۔

سی سی پی او لاہور کا مزید کہنا تھا کہ جب تک یہ سب پکڑے نہیں جائیں گے تب تک یہ چھاپے جاری رہیں گے۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ چھاپوں کے دوران پی ٹی آئی قیادت تو گھروں پر موجود ہی نہیں تھی، سی سی پی او نے جواب دیا: ’نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں۔ وہ جہاں ملیں گے وہاں انہیں پکڑ لیں گے۔‘

پی ٹی آئی کے جلسے کو سکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے بلال صدیق کمیانہ کا کہنا تھا: ’جلسے کی اجازت ڈپٹی کمشنر لاہور نے دینی ہے۔ وہ اجازت دیں گے تو پولیس سکیورٹی فراہم کر دے گی۔‘

اسلام آباد میں بھی پولیس چھاپے اور گرفتاریاں

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر شبلی فراز کے گھر پر بھی اسلام آباد پولیس نے اتوار کو چھاپہ مارا۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کو بتایا تھا کہ ’پولیس سرچ وارنٹ لے کر شبلی فراز کے گھر سرچ آپریشن کے لیے ایس ایچ او اور خواتین پولیس اہلکاروں کے ہمراہ گئی تھی۔ شبلی فراز اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔‘

پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما علی ایوان نے بھی ٹویٹ کی کہ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا لیکن وہ محفوظ ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے بھی اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’سینیٹر شبلی فراز، عمر سلطان اور سابق ایم این اے امجد خان نیازی کو گذشتہ روز بدترین پولیس گردی کا بے دردی سے شکار بنایا گیا۔ پولیس افسران اور ماتحت عملہ اپنی نوکریاں بچانے کے لیے غیر قانونی احکامات پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہفتے کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے موقعے پر اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، پولیس پر حملے سمیت مختلف کارروائیوں میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والے 198 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مزید گرفتاریوں کے لیے پولیس ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔

ترجمان کے مطابق وقوعہ میں ملوث تمام ملزمان کی کیمروں کی مدد سے شناخت کا عمل بھی جاری ہے۔ اسلام آباد پولیس نے پرتشدد واقعات پر تھانہ سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج کیے ہیں۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہروں میں شامل شرپسندوں کے پتھراو، جلاؤ گھیراؤ سے پولیس کے 58 افسران و جوان زخمی ہوئے۔ جلاؤ گھیراؤ میں پولیس کی چار گاڑیاں جل گئیں، نو گاڑیاں توڑ دی گئیں اور 25 موٹر سائیکل جلائے گئے۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنان کے گھروں پر چھاپوں کے حوالے سے پارٹی کے سینئیر رہنما فواد چوہدری نے بھی ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور اور اسلام آباد میں تحریک انصاف کے  سینکڑوں کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور سینکڑوں کارکن پولیس تحویل میں ہیں۔

انہوں  نے آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ دس دس سال کے بچوں کو پولیس نے اپنی حراست میں لیا ہے۔ خواتین پر تشدد کیا گیا ہے۔ چادر چار دیواری کا اصول پامال کیا گیا ہے۔ آپ لوگ جو کر رہے ہیں وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے منافی ہے۔ آپ اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے حد سے گزر رہے ہیں۔‘

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’جب ہم سیاست کی بات کرتے ہیں، جلسے کی بات کرتے ہیں تو یہاں گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔‘

پی ٹی آئی کی پولیس کے خلاف درخواست

پاکستان تحریک انصاف  کی جانب سے اتوار کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زمان پارک میں رہائش گاہ پر پولیس کی جانب سے کیے جانے والے سرچ آپریشن میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے تھانہ ریس کورس میں درخواست دی گئی تھی، جبکہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان بھی مقدمے میں بطور ملزم نامزد ہیں۔ 

یہ درخواست چیئرمین تحریک انصاف کی رہائش گاہ کے نگران اویس احمد  کی جانب سے دی گئی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس درخواست میں سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ، ڈی آئی جی آپریشنز افضال کوثر اور ایس ایس پی آپریشنز صہیب اشرف کے علاوہ سی آئی اے، ہیڈ کوارٹرز اور صدر کے ایس پیز ملک لیاقت، عبداللہ لک اور عظیم کھرل، ایس ہی اینٹی رائیڈز حسن جاوید بھٹی، ایس پی انویسٹی گیشن کینٹ اخلاق اللہ، ایس پی ماڈل ٹاؤن عمارہ شیرازی، ایس پی سپیشل برانچ اقرار شاہ، ڈی ایس پیز سی آئی اے طارق کیانی، محمود علی بٹ، تھانہ نواں کوٹ، تھانہ سندر، تھانہ سبزہ زار، تھانہ گارڈن ٹاؤن، تھانہ فیصل ٹاؤن، تھانہ نصیر آباد کے ایس ایچ اوز کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست میں حملے کے دوران پولیس کی جانب سے لے کر جائے جانے والے زمان پارک کے گارڈز کے لائسنس شدہ اسلحے کی تفصیلات بھی لف کی گئی ہیں جبکہ حملے کے دوران تحریک انصاف کے کارکنان اور گھر کے عملے کے اٹھائے جانے والے قیمتی سامان کی تفصیلات بھی مہیا کی گئی ہیں۔

درخواست میں الزام لگایا گیا کہ پولیس نے حملے کے دوران ملازمین کے کم و بیش 50 ہزار روپے نقدی پر ہاتھ صاف کیے۔ پولیس کپڑے اور 10 جوڑے یونیفارمز بھی ساتھ لے گئی۔ سیکورٹی عملے کی دستاویز، اے ٹی ایم کارڈز اور پرفیومز پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا۔ گھریلو عملے کی ہیئر ڈریسنگ مشینوں تک کو نہ چھوڑا گیا۔

پولیس کی جانب سے قبضے میں لیے جانے والے اسلحے میں نو ایس ایم جی گنز اور دو پستولیں شامل ہیں۔ گھر سے اٹھائے گئے سکیورٹی عملے کے قانونی اسلحے کے لائسنس نمبرز اور گولیوں کی تفصیلات بھی درخواست کے ساتھ منسلک کی گئیں ہیں۔

تحریک انصاف پنجاب کے جنرل سیکرٹری حماد اظہر نے بھی چیف سیکرٹری پنجاب کو مراسلہ بھجوا دیا کہ مارچ کے تیسرے ہفتےمیں شروع ہونے والے واقعات کی تحقیقات کیے لیے بااختیار عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔

دوسری جانب پنجاب پولیس نے بھی زمان پارک سے گرفتار ہونے والے سو کے قریب مشکوک افراد کی  فہرست جاری کر دی ہے جو اس وقت تفتیش کے لیے سی آئی اے ماڈل ٹاؤن، پولیس سٹیشن نارتھ کینٹ، سی آئی اے سٹی کوتوالی اور پولیس سٹیشن قلہ گجر سنگھ میں موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست