امریکی جہاز کو بحیرہ جنوبی چین چھوڑنے کے لیے متنبہ کیا: چینی فوج

یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کے ترجمان نے کہا کہ یہ جہاز ’بحیرہ جنوبی چین میں معمول کی کارروائیاں کر رہا ہے اور اسے نہیں نکالا گیا۔‘

چینی فوج نے کہا ہے کہ اس نے جمعرات کو ایک امریکی جنگی بحری جہاز کو متنازع جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں سے ’نکل‘ جانے کی تنبیہ کی تھی، اس دعوے کو امریکی افواج نے ’جھوٹی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

چین تقریباً پورے جنوبی بحیرہ چین پر خودمختاری کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایک سٹریٹجک آبی گزرگاہ جس کے ذریعے سالانہ کھربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بین الاقوامی عدالت نے رولنگ دی ہے کہ اس فیصلے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔

فلپائن، ویت نام، ملائیشیا اور برونائی سب ہی سمندر میں ’اوورلیپنگ‘دعوے کرتے ہیں، جب کہ امریکہ اس کے ذریعے بحری جہاز بھیجتا ہے تاکہ بین الاقوامی پانیوں میں چلنے کی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے۔

چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی سدرن تھیٹر کمانڈ نے کہا کہ گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر یو ایس ایس ملیس جمعرات کو پارسل جزائر کے ارد گرد کے پانیوں میں داخل ہوا، جس پر ویتنام بھی دعویٰ کرتا ہے۔

ترجمان تیان جونلی نے کہا کہ پی ایل اے نے ’بحری اور فضائی افواج کو قانون کے مطابق ٹریک اور نگرانی کے لیے منظم کیا‘اور ’اسے نکل جانے کے لیے خبردار کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اس جہاز نے ’چینی حکومت کی اجازت کے بغیر چین کے علاقائی پانیوں میں غیر قانونی دراندازی کی، جس سے خطے میں امن اور استحکام کو نقصان پہنچا۔‘

امریکی فوج نے عوامی جمہوریہ چین کے مخفف کا استعمال کرتے ہوئے دعووں کی فوری تردید کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ’پی آر سی کا بیان غلط ہے۔‘

یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کے ترجمان نے کہا کہ یہ جہاز ’بحیرہ جنوبی چین میں معمول کی کارروائیاں کر رہا ہے اور اسے نہیں نکالا گیا۔‘

ترجمان نے کہا کہ ’امریکہ جہاں بھی بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے وہاں پرواز، بحری جہاز اور کام جاری رکھے گا۔‘

بحیرہ جنوبی چین میں اپنے دعووں پر زور دیتے ہوئے، چینی حکام نے حالیہ برسوں میں مصنوعی جزیرے بنائے ہیں، جن میں کچھ فوجی سہولیات اور رن وے بھی شامل ہیں۔

علاقائی ممالک نے چینی جہازوں پر اپنی ماہی گیری کی کشتیوں کو ہراساں کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا