شام کے شہر ادلب میں روسی جنگجو کا سوشی ریستوران

شام میں لڑنے والے روسی شہری اسلام شخبانوف نے ہتھیار پھینک کر جنگ زدہ ملک کے باغیوں کے زیر انتظام شمال مغربی علاقے میں سوشی ریستوران کھول لیا۔

شام میں لڑنے والے روسی شہری اسلام شخبانوف نے ہتھیار پھینک کر جنگ زدہ ملک کے باغیوں کے زیر انتظام شمال مغربی علاقے میں سوشی ریستوران کھول لیا ہے جہاں وہ ’وسابی‘ نامی جاپانی ڈش پیش کرتے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لڑائی کی شدت میں کمی کے بعد جنگجو آمدن کی تلاش میں ہیں۔

اکثریتی مسلم ملک داغستان سے تعلق رکھنے والے اسلام شخبانوف ’جہاد میں حصہ لینے‘ 2015 میں شام پہنچے۔

برسوں کی جنگ کے بعد دمشق حکومت نے ملک کے بیشتر حصے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور شام کے اہم محاذوں پر بڑی حد خاموشی ہے جس کے بعد غیر ملکی جنگجو بے روزگار ہیں۔

شخبانوف کہتے ہیں کہ ’آخر میں، میں نے سوشی کا یہ ریستوران کھول لیا۔‘

انہوں نے یہ بات ایک ایسے بینر کے پاس کھڑے ہو کر کہی جس پر عربی، انگریزی اور روسی زبان میں تحریر درج تھی۔

گرم جیکٹ اور سیاہ رنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے شخبانوف نے بتایا کہ وہ تقریباً پانچ سال پہلے تک جہادی دھڑوں اور فیلاق الشام نامی باغی گروپ کے ساتھ لڑتے رہے۔

شخبانوف نے کہا کہ وہ پاکستان، افغانستان، انڈونیشیا سمیت مختلف ممالک میں رہ چکے ہیں اور اپنے سفر کے دوران جاپانی کھانوں کے نمونے لینے کے بعد انہیں ’سوشی اِدلب‘ کے نام سے ریستوان کھولنے کی ترغیب ملی۔

 انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ ’اس قدامت پسند علاقے میں یہ پہلا سوشی ریستوران ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادلب ان علاقوں میں شامل ہے جو چھ فروری کو شام اور ترکی میں آنے والے زلزلے سے متاثر ہوئے تاہم شخبانوف کا سوشی ریستوران محفوظ رہا۔

کاؤنٹر کے پیچھے دو باورچیوں نے جو سابق روسی جنگجو بھی ہیں، تازہ سالمن مچھلی اور کھیرے کاٹے اور انہیں چاولوں اور سمندری کائی پر پھیلانے کے بعد تمام اشیا کو رول کی شکل دے دی۔

ریستوران نے پہلے تو غریب علاقوں میں گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جہاں جاپانی کھانا ایک عجیب بات ہے تاہم شخبانوف نے اپنے سمندری کائی کے رول کو سستا قرار دیا۔

کیلی فورنیا رول 60 ترک لیرا (تین ڈالر) کا ہے جو مقامی لوگوں کے لیے زیادہ مانوس بڑے شاورمے کی قیمت سے دوگنی قیمت کا ہے۔

شخبانوف کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس ایک درجن کے قریب ریگولر ڈشز ہیں اورانہیں مینیو میں تلی ہوئی ڈشز شامل کر کے مزید گاہگوں کو راغب کرنے کی امید ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’منقسم باغی دھڑے کسی فوجی حکمت عملی پر متفق ہو جائیں تو میں سوشی کو پیچھے چھوڑ کر دوبارہ لڑنے کے لیے تیار ہوں۔‘

شخبانوف کے بقول: ’میں نے ریستوران کھولا ہے لیکن میں نے جہاد ترک نہیں کیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا