سٹیٹ بینک پیر تک الیکشن کمیشن کو فنڈز دے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کے لیے اپنے اکاؤنٹ سے 17 اپریل تک 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کے لیے اپنے اکاؤنٹ سے 17 اپریل تک 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کا حکم دیا ہے۔

آج چیف جسٹس کے چیمبر میں دو صوبوں میں الیکشن کے لیے فنڈز کی عدم دستابی کے معاملے پر ان چیمبر سماعت ہوئی۔

سماعت کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا، جس کے مطابق سٹیٹ بینک سے 21 ارب روپے وصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن الیکشن کے حوالے سے فنڈز جاری کرنا شروع کرے گا۔

حکم نامہ میں کہا گیا کہ سٹیٹ بنک کے مطابق 21 ارب روپے سوموار تک فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

’سٹیٹ بینک کے مطابق حکومت کے مختلف اکاؤنٹس میں ایک کھرب 40 ارب روپے سے زیادہ فنڈز موجود ہیں۔‘

حکم نامے میں سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ 18 اپریل تک حکم کی تعمیل پر رپورٹ جمع کرائیں۔

اسی طرح الیکشن کمیشن 18 اپریل کو سپریم کورٹ کو رپورٹ میں بتائے گا کہ اسے مطلوبہ فنڈز وصول ہو چکے ہیں۔


ججوں کے درمیان ہاتھا پائی کی خبر سراسر جھوٹ: ترجمان سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کی ترجمان نے 13 اپریل، 2023 کو ججز کالونی پارک میں شام کو چہل قدمی کے دوران ججوں کے درمیان مبینہ جھگڑے اور ہاتھا پائی کی ایک خبر کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ ترجمان کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا، ’اس خبر کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز سے لیا اور اجاگر کیا گیا۔

’اس رپورٹ کی سخت ترین الفاظ میں تردید کی جاتی ہے۔ یہ جھوٹی، شرارت اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘

پریس ریلیز کے مطابق  سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں جعلی رپورٹنگ، قانون کی سنگین خلاف ورزی اور عدالت اور اس کے معزز ممبران کے وقار کو کم کرنے کے لیے کوشش کی عکاس ہے۔


چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی خبریں مسترد: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے متعلق کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔


وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت

وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے ٹیلی فون پر ایران کے صدر ابراہیم ریئسی سے گفتگو میں انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔

شہباز شریف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ٹیلی فون پر ہم نے دو طرفہ تعلقات کے مختلف پہلوؤں اور اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تبادلہ خیال کیا۔

’ہم نے ایران- سعودی تاریخی معاہدے پر انہیں مبارک باد پیش کی جو علاقائی استحکام کے لیے بہتر ہے اور انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی۔‘


سپریم کورٹ کو بطور ادارہ تحلیل کرنے کے اقدامات ہو رہے ہیں: فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے الزام عائد کیا کہ حکومت سپریم کورٹ کو بطور ادارہ تحلیل کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔

انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’سپریم کورٹ کے احکامات پر فی الفور عمل ہونا چاہیے۔ پارلیمان آرٹیکل 81 کے تحت الیکشن کے اخراجات روک نہیں سکتی۔

’سپریم کورٹ کو بطور ادارہ تحلیل کرنے کے اقدامات ہو رہے ہیں، یہ کسی صورت قبول نہیں۔ وکلا اور عوام سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘


پارلیمان نے فنڈ دینے سے روک دیا، حکومت کچھ نہیں کر سکتی: اٹارنی جنرل

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق جمعے کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر میں سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے سماعت کی۔

سماعت میں سیکریٹری الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ و سٹیٹ بینک کے نمائندے پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان اور وزارت خزانہ و سٹیٹ بینک کے حکام نے عدالت کو بریفنگ دی۔

اٹارنی جنرل نے  عدالت کو مطلع کیا کہ پارلیمان نے وفاقی حکومت کو فنڈز کی فراہمی سے روک دیا ہے اور اب حکومتِ وقت کے پاس اس معاملے پر کرنے کو کچھ نہیں۔

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے جواب بھی جمع کروایا گیا۔

اس جواب میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے نو مارچ کو منعقدہ اجلاس میں فائنانس ڈویژن کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے بھیجا گیا بل منظور کیا تھا۔

’لیکن ان فنڈز کے اجرا کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کا بنایا جانا ضروری تھا اور اسی مقصد کے لیے اسے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تاہم پارلیمنٹ کے 10 اپریل کے اجلاس میں مجوزہ بل کو مسترد کر دیا گیا۔‘

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سے بل مسترد ہونے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈ جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان کو فنڈ جاری کرنے کا حکم نہیں دے سکتی اور وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کے تحت اپنی قانونی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کا توہین عدالت کا سامنا کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا: ’کس چیز کی توہین عدالت؟ وفاقی حکومت نے کابینہ سے قانون پاس کروایا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ پارلیمان نے فنڈز دینے کی اجازت نہیں دی اور اس متعلق حکومتی مؤقف سے عدالت کو آگاہ کیا، جبکہ دیگر اداروں نے بھی صورت حال سے عدالت کو آگاہ کیا۔

’فیڈرل کونسولیڈیٹڈ فنڈز کا قومی اسمبلی کی منظوری سے ہی پیسہ جاری ہوتا ہے، حکومت کو بھی ہدایات جاری کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری درکار ہوتی ہے۔‘

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو پنجاب اسمبلی کے لیے انتخابات سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف یہ کہ حکومت کی جانب سے فنڈز کی ادائیگی کی فراہمی میں کوئی پیش رفت ہوئی، بلکہ نگران حکمرانوں تاحال نے سکیورٹی کی فراہمی سے متعلق بھی کوئی یقین دہانی بھی نہیں کروائی ہے۔


سماعت خوش گوار ماحول میں ہوئی: سیکریٹری الیکشن کمیشن

سماعت کے بعد سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں سماعت خوش گوار ماحول میں ہوئی۔

میڈیا سے گفتگو میں عمر حمید کا کہنا تھا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کا مؤقف پیش کیا اور ملک میں مردم شماری کے معاملے ہر بھی بات ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے بعد ملک میں انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے چار سے پانچ ماہ درکار ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے صوبائی انتخابات کے لیے 10 اپریل تک وفاقی حکومت کو 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالت کے متعلقہ حکام کی طلبی کے حکم سے عوامی و سیاسی حلقوں میں کافی ہلچل نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف یہ دعوی کر رہی ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ نااہل ہو جائیں گے جبکہ دوسری طرف وزرا کا کہنا ہے کہ حکومت کی مشاورت جاری ہے اس نے کیا جواب دینا ہے۔

یہ طلبی ایسے وقت میں ہوئی، جب صرف ایک روز قبل عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر، جسے عدالتی اصلاحات کا بل بھی کہا جا رہا ہے، عمل درآمد تا حکم ثانی روک دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ’ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو گا۔‘


حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

ایسے میں انڈپینڈنٹ اردو نے سپریم کورٹ کے گذشتہ روز کے فیصلے اور اس سے قبل کے نوٹس کے بعد پیدا ہونے والے سوالات اور حکام کی طلبی سے متعلق رائے جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ صورت حال حکومت کے لیے کتنی پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے؟ حکومت اب کیا موقف اختیار کر سکتی ہے؟ کیا اب بھی حکومت کے پاس انتخابات میں تاخیر کے لیے کوئی ٹھوس وجہ موجود ہے اور کیا عدالت ذمہ داران کے خلاف توہین عدالت لگانے کی طرف جا سکتی ہے؟

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فنڈز کے اجرا کے ذمہ داران وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے خلاف توہین عدالت لگ سکتی ہے لیکن ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے کہ پارلیمان اجازت دے تب ہی فنڈز جاری ہو سکتے ہیں اس لیے اگر کسی نے توہین عدالت کی ہے تو وہ پارلیمان ہے۔

عدالت نے گورنر سٹیٹ بینک کو دستیاب وسائل سے متعلق تمام تفصیلات بھی ہمراہ لانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اور سیکریٹری خزانہ کو حکومت کے پاس موجود رقم کی تفصیلات ہمراہ لائیں۔

حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے رائے دے رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے حکم عدولی کی صورت میں اس پر آئین کے غداری سے متعلق آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے۔

ماہر قانون وقاص میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر حکومت کے پاس سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے علاوہ اور کوئی راستہ / آپشن نہیں ہے۔

’لوگوں کی بینچوں کی تشکیل سمیت مختلف مسائل پر الگ الگ آرا ہو سکتی ہیں لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ عدالت نے واضح طور پر حکومت کو فنڈز کی ایک مخصوص رقم جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔‘

وقاص میر نے کہا کہ ’حکومت عملی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کر سکتی ہے لیکن وہ دلیل کام نہیں کرے گی اور سپریم کورٹ کے احکامات کو نہ ماننے کے نتیجے میں توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔‘

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز کی صورت حال سے متعلق 11 اپریل کو رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ کمیشن سربمہر رپورٹ عدالت کو پیش کرچکی ہے۔

آئینی امور کے ماہر ظفراللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کروانا عدالت کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ ’اس وقت انتخابات کروانے یا نہ کروانے سے متعلق حکومت کے پاس آپشنز موجود ہیں لیکن سپریم کورٹ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر اس مرحلہ پر عدالت وزیر اعظم سمیت پارلیمان کے کسی رکن کو نااہل کر دے تو متعلقہ حلقے پر انتخاب نہیں ہو سکے گا۔ اسی طرح کسی کی نااہلی کے فیصلے کے باوجود پارلیمان کی تشکیل تبدیل نہیں ہوگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’کل اگر نگران وزیر اعلی پنجاب یا چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں تو انتخابات کون کروائے گا؟ عدالت کو ان معاملات میں مداخلت سے دور رہنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگست سے اکتوبر کے درمیان انتخابات ہو جائیں گے اس وقت انتخابات کے معاملے پر غیر آئینی صورت حال نے جنم لے لیا ہے۔‘

حکومت کے پاس عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے بعد کی صورت حال پر سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت اور عدلیہ کی وقت کے خلاف ایک دوڑ ہے۔ ان کے خیال میں سرکاری محکموں کو عدالت کے فیصلے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

’حکومت عبوری حکم امتناعی حاصل کرنے کے لیے نظرثانی کی درخواست دائر کر سکتی ہے یا پھر 20 اپریل کو قانون کے فعال ہونے تک کا انتظار کر سکتی ہے تاکہ وہ اپیل دائر کر سکے جو دیگر ججز کی جانب سے سنی جائے۔‘

عدالتی فیصلے پر حکومت کے علاوہ بار کونسلز کے تحفظات سامنے آ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت پر بھی انتخابات کی طرف جانے کے لیے دباؤ بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس دوران رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم کی قانونی ماہرین سے مشاورت بھی ہوئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آج حکومت اہلکار عدالت کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر شہباز شریف کی حکومت کی قانونی اور سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست