جوڈیشل ایکٹیوازم: کب تک، کہاں تک؟

یہ سوال وقت نے انگارے کی صورت ایک بار پھر معاشرے کی ہتھیلی پر رکھ دیا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے یہیں بجھا دیں، چاہیں تو اس سے سب کچھ جلا لیں۔

ایک شخص اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

ایک پارلیمانی جمہوری طرز معاشرت میں جوڈیشل ایکٹیوازم کو کب تک اور کہاں تک گوارا کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال وقت نے انگارے کی صورت ایک بار پھر معاشرے کی ہتھیلی پر رکھ دیا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے یہیں بجھا دیں، چاہیں تو اس سے سب کچھ جلا لیں۔

بالعموم، سوموٹو ہی کی کارروائی کو جوڈیشل ایکٹیوازم سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصور بہت وسیع ہو چکا ہے اور اس سے جڑے چیلنجز بھی بہت سنگین ہو چکے ہیں۔

جب پارلیمان 2012 میں توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کرتی ہے تو سپریم کورٹ پارلیمان کے بنائے اس قانون کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔ یہ بھی بظاہر جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب آئین میں آرٹیکل 184 سب کلاز تین میں از خود نوٹس کے سپریم کورٹ کو دیے گئے اختیارات  کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے صرف چیف جسٹس مراد لیا جاتا ہے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب سموسوں کی قیمتوں میں اضافے پر از خود نوٹس لے لیا جاتا ہے یا جب عتیقہ اوڈھو کے بیگ سے شراب کی مبینہ بوتل برآمد ہونے پر سوموٹو کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب بینچ بنانے کے اختیارات کا یوں استعمال ہو کہ پارلیمان بھی سراپا سوال بن جائے اور جب بینچوں کی تشکیل میں اہم ترین مواقع پر سینیئر ترین جج کو نظر انداز کیا جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب بینچ میں کسی جج کو شامل کرنے کی شان نزول یہ بیان کی جائے کہ کسی کو خاموش پیغام دینا مقصود تھا تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب اس پر پارلیمان قانون بنانے لگے اور صوابدیدی اختیارات ختم کرتے ہوئے باقاعدہ طے کرنا چاہے کہ سوموٹو کیسے لیا جائے گا اور بینچ کی تشکیل کیسے ہو گی، لیکن عدالت پارلیمان کے قانون بنانے سے ہی پہلے اس کے خلاف فیصلہ کر دے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب الجہاد ٹرسٹ کیس میں طے شدہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں لایا جائے اور پارلیمانی کمیشن عملاً غیر متعلق ہو جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب آئین کی تشریح کا دائرہ کار اتنا وسیع ہو جائے کہ اسے ری رائٹ ہی کر دیا جائے، جب  ڈی فیکشن کلاز کی شرح کے نام سرے سے ووٹوں کو ہی مسترد کر دیا جائے، باوجود اس کے کہ یہ بات آئین میں کہیں موجود ہی نہ ہو تو گویا یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب عدالت کے پاس خود آئین میں ترمیم کا اختیار نہ ہو اور وہ یہ اختیار حاکم وقت کو دے دے کہ وہ آئین کو آئین میں دیے گئے اصول کی بجائے اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتا ہے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہی کی ایک انتہائی شکل ہے۔

جب کہا جائے کہ عدلیہ میں چین آف کمانڈ پیدا ہو چکی ہے تو یہ تصور آئین میں اجنبی ہے اور اسے بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہی کہا جائے  گا۔

جب ٹرائل کورٹ کے اوپر ایک نگران جج تعینات کر دیا جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

جب چیف جسٹس ڈیم بنانے کی اضافی ذمہ داری اپنے سر لے لیں اور ڈیم فنڈ قائم کر دیا جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔

اختیارات کی تقسیم آئین پاکستان کی مبادیات میں سے ہے۔ جوڈیشل ایکٹیوازم حد سے بڑھ جائے تو یہ تقسیم ختم ہونے لگتی ہے اور اس سے بہت ساری قباحتیں جنم لیتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جوڈیشل ایکٹیوازم کی پاکستان نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ریکوڈیک اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ہم چھ ارب ڈالر جرمانہ کروا بیٹھے۔ اس وقت ناک سے لکیریں کھینچ کر ہم نے آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا وعدہ لیا ہے۔ یہ چھ ارب ڈالر جوڈیشل ایکٹیوازم کا ادنیٰ سا خراج تھا۔

یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے وقت عدالت نے چیف ایگزیکٹیو کو حکم دیا تھا اور حکم عدولی پر وہ نااہل ہوئے۔ اب کی بار عدالت نے چیف ایگزیکٹیو سے باز پرس سے پہلے سٹیٹ بینک کے گورنر کو براہ راست حکم دے دیا ہے۔ یہ بھی بظاہر جوڈیشل ایکٹیوزم ہی تو ہے۔

 لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سے ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو کیا پیغام گیا ہو گا جنہیں ہم نے معاشی اصلاحات کے بعد بتایا تھا کہ اب سٹیٹ بینک خود مختار ہو چکا۔ خدا نہ کرے اس کی قیمت ریکوڈیک سے بھی زیادہ ادا کرنی پڑ جائے۔

سوال اب یہ ہے کہ یہ جوڈیشل ایکٹیوازم کب تک اور کہاں تک؟ پارلیمان کو کسی اشتعال اور ردعمل کی کیفیت کا شکار ہوئے بغیر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا اور اس بارے میں قانون سازی کرنا ہو گی اور قانون سازی کے اپنے اس حق پر اصرار کرنا ہو گا۔

اہل سیاست کا کردار بھی اس باب میں شاندار نہیں ہے۔ ان کی قانون سازی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ جب ان کا مفاد خطرے میں پڑتا ہے تو انہیں یاد آتا ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز اینڈ پروسیجرز میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

وہ اپنے مفاد کے لیے نیب کا قانون بدلتے ہیں۔ وہ قانون سازی کو بھی اسی مفاد کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور عدالتی فیصلوں کو بھی اپنے مفاد کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ ایسے میں ان پر جوڈیشل ریویو کا چیک نہ ہونے کا مطلب پارلیمان کا بالادستی نہیں بلکہ جمہوری آمریت ہو گا۔

توازن ہی زندگی کا حسن ہے اور اعتدال ہی میں نجات ہے۔  سب کو آئین میں دیے گئے دائرہ کار میں لوٹ جانا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر