سوات دھماکہ: ’کسی کام سے باہر نکلا ورنہ شاید آج میں بھی نہ ہوتا‘

ضلعی پولیس سربراہ کے مطابق ’دو دھماکے سنے گئے تھے اور بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ کمرے میں پڑا بارودی مواد اور دستی بم پھٹ رہے تھے۔‘

عید کی چھٹیاں گزارنے میں اپنے آبائی گاؤں گیا ہوا تھا کہ پیر کی رات خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں انسداد دہشت گردی کے دفتر میں دھماکے کی اطلاع ملی۔ اس دھماکے کے نتیجے میں اب تک 17 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔

اگلے ہی دن یعنی منگل کو جائے وقوعہ پر جانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ وہاں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں سی ٹی ڈی تھانے کی ’عمارت گر گئی‘ ہے۔

سوات پولیس کے ضلعی سربراہ شفیع اللہ گنڈا پور نے دھماکے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’اب تک بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ کے پرانے تہہ خانے میں پڑا بارودی مواد بجلی کے شارٹ سرکٹ کے باعث دھماکے سے پھٹ گیا ہے۔‘ 

تاہم اس واقعے کو تقریباً 20 گھنٹے گزر جانے کے باوجود تاحال دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہو سکا ہے اور وزارت داخلہ اور سکیورٹی حکام کی جانب سے تاحال حتمی طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

جس تہہ خانے کی بات پولیس کے ضلعی سربراہ شفیع اللہ گنڈا پور نے کیا وہ ان کے مطابق پرانا سی ٹی ڈی دفتر ہے اور اسی دفتر سے بالکل متصل کبل پولیس سٹیشن واقع ہے۔

یوں کہہ لیں کہ اس تہہ خانے کی دیواریں کبل پولیس سٹیشن سے بالکل متصل ہیں لیکن ایک جانب سی ٹی ڈی کی عمارت اور دوسری جانب کبل پولیس سٹیشن کی عمارت ہے۔

موقع پر جا کر یہ پتہ چلا کہ تہہ خانے کے اوپر بنی عمارت کو جزوی نقصان تو پہنچا ہے لیکن عمارت نہیں گری۔

وہاں موجود ایک پولیس اہلکار سے جب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ ایک بڑا ہال ہے جہاں پر مختلف دہشت گردی کے واقعات میں برآمد کیا جانے والا باروری مواد، دستی بم اور دیگر اسلحہ رکھا جاتا ہے۔‘

تاہم یہ اہلکار اس بات پر حیران ضرور تھے کہ جس عمارت کے نیچے مواد پھٹا ہے اس کو جزوی نقصان پہنچا ہے لیکن اسی عمارت سے تقریباً تین چار گز فاصلے پر واقع رہائشی بیرکس کی عمارت گر گئی ہے۔

ان بیرکس میں دفتر کے ملازمین رہائش پذیر تھے جو دو منزلہ عمارت ہے اور اس میں بھی ایک بیسمنٹ بنا ہوا ہے۔

اسی بیرک میں رہنے والے ایک پولیس اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کل رات میں کسی کام سے باہر نکلا تھا ورنہ شاید آج میں بھی نہ ہوتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ان بیرکس میں ہم رہتے ہیں اور سامان وغیرہ بھی یہیں پڑا رہتا ہے۔‘

ہم نے دیکھا کہ کچھ اہلکار بیرکس سے اپنی بلٹ پروف جیکٹس اور رائفل بھی اٹھا رہے تھے جو گردو غبار سے بھرے ہوئے تھے۔

بیرکس سے متصل ایک دوسرا ہال بھی تھا جو مصالحتی کونسل کا دفتر تھا۔ اس ہال کی پوری چھت نیچے گری ہوئی تھی۔

 جبکہ بیرکس کے ستون تو کر چکے تھے لیکن چھت نہیں گری تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان بیرکس کے بالکل سامنے پولیس لائن کی مسجد بھی ہے اور اسی مسجد کی چھت کے ایک کونے میں ایک بڑا سوراخ بنا ہوا ہے۔

یہ مسجد بیرکس اور بارودی مواد رکھنے کی بیسمنٹ کے سامنے ہے اور تقریباً پانچ چھ گز کے فاصلے پر ہے۔

مسجد کی چھت کا یہی حصہ گرا ہوا تھا اور شیشے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

جب میں مسجد کے حوالے سے باتیں کر رہا تھا تو قریب کھڑے سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’مسجد کی چھت میں یہ سوراخ بہت عجیب ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک دھماکہ اسی مسجد میں کیا گیا ہو۔‘

ضلعی پولیس سربراہ کے مطابق ’دو دھماکے سنے گئے تھے اور بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ کمرے میں پڑا بارودی مواد اور دستی بم پھٹ رہے تھے۔‘

پولیس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’اس دھماکے میں باہر سے کوئی شخص اندر نہیں آیا اور اب تک ہمیں اس دھماکے میں دہشت گردی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔‘

آج تقریباً دو بجے کے بعد جائے وقوعہ کو پاکستان فوج نے سنبھال لیا اور وہ ممکنہ طور پر مزید دستی بموں اور باروری مواد کو دیکھ رہے تھے۔

ہمیں بھی یہ مشورہ دیا گیا کہ عمارت ابھی تک کلیئر نہیں ہے اور عمارت کے اندر جانے سے گریز کریں۔ چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا۔

شام کے وقت جب ہم دوبارہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو واقعی ایسا ہی ہوا کہ کچھ دستی بم برآمد ہو چکے تھے اور ان کو ناکارہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان