پچھلے پانچ سالوں میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلاب برپا ہوا ہے۔ الیکٹرک کاریں جو کبھی محض امیر لوگوں کی رسائی میں تھیں، دنیا کے کئی ممالک میں مرکزی دھارے میں آ گئی ہیں۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کے 26 اپریل کو جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال دنیا بھر میں فروخت ہونے والی تقریباً پانچ میں سے ایک نئی گاڑی یا تو مکمل بیٹری الیکٹرک یا پلگ ان ہائبرڈ ماڈلز ہوں گی۔ مجموعی طور پر اس سال اس قسم کی ڈیڑھ کروڑ گاڑیاں فروخت ہونے کی توقع ہے جو کہ 2017 میں تقریباً دس لاکھ تھیں۔
سائنس میگزین ’دا سائنٹسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دھماکہ خیز ترقی صنعت کی جدت اور حکومتی مداخلت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ بیٹری کی گرتی ہوئی لاگت نے طویل فاصلے تک چلنے والی کاریں فراہم کی ہیں، جس سے مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
کچھ ممالک میں نئی پٹرول اور ڈیزل کاروں کی فروخت پر پابندیوں سمیت حکومتی پالیسیوں نے لوگوں کو زیرو ایمیشن ڈرائیونگ کو اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔
نامہ نگار میڈلین کف لکھتے ہیں کہ نتیجہ کار کی صنعت میں ایک تبدیلی ہے جو دنیا کے توانائی کے استعمال کو نئی شکل دے گی۔ آئی ای اے نے پیش گوئی کی ہے کہ 2025 میں سڑک کی نقل و حمل کے لیے تیل کی عالمی طلب عروج پر ہو گی۔ آئی ای اے میں فاتح بیرول نے ایک بیان میں کہا، ’پیٹرول/ڈیزل والا انجن ایک صدی سے زیادہ عرصے سے بےمثال رہا ہے، لیکن الیکٹرک گاڑیاں حالات کو بدل رہی ہیں۔‘
اگرچہ عالمی گاڑیوں کے بیڑے کو بجلی بنانے سے موسمیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، لیکن تشویش کی وجہ بھی ہے۔ حالیہ برسوں میں ایس یو وی گاڑیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ 2020 میں تمام کاروں کی فروخت کا 42 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، الیکٹرک ایس یو ویز نے بھی جگہ بنائی ہے جو 2022 میں تقریباً 35 فیصد الیکٹرک مسافر کاروں کی فروخت کی نمائندگی کرتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں کرسچن برانڈ بڑی کاروں کی طرف اس رجحان کو ’ہجوم‘ کی وبا قرار دیتے ہیں۔ الیکٹرک ایس یو ویز اب بھی اپنے پیٹرول اور ڈیزل ہم عصروں سے زیادہ گرین ہیں لیکن ان کا سائز اور وزن الیکٹرک گاڑیوں (ای ویز) کی طرف جانے سے آب و ہوا کے کچھ فوائد کو کھا جاتا ہے۔ ان کی بڑی بیٹریوں کو کوبالٹ اور لیتھیم جیسے مزید خام معدنیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو پہلے سے پھیلی ہوئی عالمی سپلائی پر اضافی دباؤ ڈالتی ہے۔
برانڈ کا کہنا ہے کہ ’بڑی کاروں کی طرف رجحان یقینی طور پر بالکل بھی مطلوب نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ لوگوں کو چھوٹی ای وی کا انتخاب کرنے کی ترغیب دینے کے لیے نئی پالیسیوں کی تجویز کرتے ہیں جیسے کہ الیکٹرک ایس یو ویز کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا۔ ’یقیناً، یہ پالیسی سازوں کے لیے غیر مقبول ہے کیونکہ وہ ووٹ کھونے سے ڈریں گے۔ لیکن ہم وقت کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر 2050 تک کروڑوں ٹن کاربن کا اخراج روک سکتے ہیں، اگر ہم نے برطانیہ میں ایسا کچھ کرنا ہے۔‘
فضائی آلودگی ایک اور پریشانی ہے۔ آئی اے ای کی رپورٹ کے مطابق انڈیا جیسے غریب ممالک میں الیکٹرک سکوٹر اور ٹک ٹوک رکشے ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی جگہ لے رہے ہیں جس سے شہری ہوا کے معیار میں نمایاں بہتری آئے گی۔ امپیریل کالج لندن کے فرینک کیلی کا کہنا ہے کہ امیر ممالک میں جہاں پیٹرول اور ڈیزل کاریں زیادہ صاف ہوتی ہیں صورت حال اتنی واضح نہیں ہے۔
فرینک کیلی کہتے ہیں، ’ایک الیکٹرک گاڑی کا فائدہ، دھویں اور گیسوں کے اخراج کے نقطہ نظر سے دراصل بہت چھوٹا ہے۔ اور چونکہ الیکٹرک گاڑیاں اب بھی اپنے ٹائروں، بریکوں اور سڑک کے استعمال سے آلودگی پیدا کرتی ہیں، اس لیے فضائی آلودگی مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی۔ ہمیں اب بھی اپنے شہروں میں ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہو گا۔‘
فرینک کا کہنا ہے کہ اس طرح حکومتوں کو گاڑی پر انحصار کو کم کرنے کے لیے خاص طور پر شہری علاقوں میں مزید کچھ کرنا چاہیے۔ ’صاف پبلک ٹرانسپورٹ شہری علاقوں میں ہمارے فضائی آلودگی کے مسئلے کا حل ہے۔ اور واقعی، ہمیں تمام پرائیویٹ گاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ کم کرنا چاہیے، نہ کہ بڑھتی ہوئی تعداد کا جشن۔‘