ججوں کی پولیسنگ کون کرے گا؟

صرف پاکستان ہی میں نہیں، امریکہ میں بھی چند حالیہ واقعات کے بعد آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ججوں کے احتساب کا کوئی نظام ہونا چاہیے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

دنیا بھر میں عوام کا سامنا بے چارے پولیس والے ہی کرتے ہیں۔ نہ یہ قوانین بنانے کا اختیار رکھتے ہیں نہ اس میں تبدیلی کا، نہ دھرنے بٹھانے کا آئیڈیا ان کا ہوتا ہے، نہ مخالفین کے خلاف آپریشن کی انہیں سوجھتی ہے۔

یہ عوام کی قسمت تو چھوڑو، اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے، لیکن روزانہ کی بنیاد پہ سرکار کے نمائندے بن کر عوام میں جانے کی جرات صرف پولیس والے ہی کرتے ہیں۔

سرکار چاہے جتنی بھی کمزور ہو وہ اپنی پولیس سے یہی امید لگاتی ہے کہ پولیس ریاست کی رٹ کو نافذ کرے گی، اب اس نفاذ رٹ کے چکر میں کم تعداد اور کم سہولیات کی ماری پولیس کیا کیا نہیں کرتی۔ کیوں کہ انہیں علم ہے پولیس افسران کو حکم دینا، عمل درآمد میں کوتاہی پہ معطل کرنا اور حکم ماننے سے انکار پہ عہدے سے برخاست کیا جانا آسان ہے۔

پولیس والوں کو رشوت خور، بزدل، ظالم، کام چور کہنا بھی آسان ہے۔ پولیس والا چائے پانی کے نام پہ ہزار کا نوٹ پکڑ لے تو خبروں کی سرخی بن جاتی ہے۔ ’پولیس کی جرائم پیشہ افراد سے ساز باز‘ یہ خبر بھی بغیر کسی ثبوت کے، بڑے دھڑلے سے اچھالی جا سکتی ہے۔

پولیس والوں کی فٹنس ہمارے طنز و مزاح کا باقاعدہ مضمون ہے۔ ان کے بڑھے ہوئے پیٹ کا مذاق اڑانا عام سی بات ہے۔ پولیس والوں سے بھاگا نہیں جاتا تو دیکھنے والے خوب ٹھٹھا اُڑاتے ہیں، ان سے اپنی کھٹارہ پٹرولنگ وین کو دھکا نہیں لگایا جاتا تو بھی شریر لڑکے ویڈیو بنا لیتے ہیں اور ہم سب مل کر ہی ہی کرتے ہیں۔

ویسے پولیس والے کی ویڈیو بنانا اور اسے وائرل کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ پولیس والا گالی دے، پیسے پکڑے، تھانے کی کرسی پہ بیٹھا بیٹھا سو جائے یا سیاسی دھرنوں کی لمبی لمبی ڈیوٹی کے دوران کونے میں بیٹھ کر تھیلی میں پیک کھانا کھا لے، ان کی کم مائیگی کو چھپ کر ریکارڈ کرنے اور اسے سوشل میڈیا پہ دیکھنے والوں کی اپنی ’فین بیس‘ ہے۔

پولیس والے کو ڈیوٹی کے دوران سرعام تھپڑ رسید کر دینا بھی دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔ کبھی ہائی کلاس خاتون کے ہاتھوں کبھی بااثر شخصیت کے ہاتھوں ان کی عزت اچھالی جا سکتی ہے۔ چوں چرا کریں تو ٹرانسفر یا مہینے بھر کی معطلی پکی ہے۔

سیاسی اور باشعور طبقے کا پولیس کے ساتھ طریقہ واردات ذرا مختلف ہے۔ پولیس والے کو اس کی اوقات یاد دلانا، اسے یہ جتانا کہ اس کی وردی ہمارے ٹیکس کے پیسے سے ہے، اس کے شانوں پہ لگے بیچ کو نوچا جا سکتا ہے۔ یہ مناظر سیاسی احتجاج کے دوران دیکھے جا سکتے ہیں۔

سارا ملک مل کر پولیس کی پولیسنگ میں لگا رہتا ہے حالانکہ وردی والے اور بھی ہیں لیکن وہاں تک طاقت پرواز نہیں۔ قانون کے رکھوالے اور بھی ہیں جیسے کہ سیاست دان تو ان کو کرسی اتارنے اور سولی چڑھانے کی مشق بھی ہمارے یہاں چلتی رہتی ہے۔

آئین و قانون کی حفاظت کا نعرہ عدلیہ بھی لگاتی ہے، لیکن کیا ہم اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ٹھیک اس ہی معیار کے مطابق پرکھتے ہیں جن کے مطابق ہم پولیس کو جانچتے ہیں؟ باوجود یہ کہ ان کے نام کی حساسیت، اور سرکاری مراعات و تنخواہوں میں سیاہ و سفید جتنا فرق ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکینڈلز تو عدالت عالیہ و عظمیٰ والوں کے بھی بنتے ہیں، لین دین کے قصے تو ان کے بھی رپورٹ ہوئے، بچے ان کے بھی باپ کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے پائے گئے، سیاسی ہمدردی، سیاسی پوسٹنگ، اس جیسے کتنے ہی الزامات تو گاہے بگاہے آتے رہتے ہیں۔

مگر اس کے باوجود آج تک کوئی جج کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکا۔ فوجی جرنیلوں کی طرح ان کی وضاحتیں بھی صرف سوانح حیات میں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ پولیس کی پولیسنگ تو ہم 75 برسوں سے کر ہی رہے ہیں لیکن ججز کی پولیسنگ کون کرے؟

بلین ڈالر کا یہ سوال صرف پاکستان ہی نہیں امریکہ میں بھی پوچھا جا رہا ہے۔

امریکی اخبارات میں امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس کلیرنس ٹامس کے حوالے سے رپورٹس آئیں کہ مبینہ طور پر جج صاحب نے ریئل اسٹیٹ کے ارب پتی تاجر سے لاکھوں ڈالرز مالیت کے تحائف لیے، لگژری سفر کیے۔ ایک اور سپریم کورٹ جج جسٹس نیل گورسچ بھی پراپرٹی معاملات میں لاکھوں ڈالرز وصول کر چکے۔

امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں گذشتہ روز ججوں کے مس کنڈکٹ، ان کے عدالتی رویوں اور کرپشن کے معاملات پہ سماعت ہوئی ہے۔ ججوں کو وضاحت دینے کے لیے بلایا گیا۔ امریکی میڈیا پہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے بحث چھڑ ی ہوئی ہے۔

امریکی عوام میں اپنی عدلیہ پہ اعتماد کا گراف نصف سے بھی کم رہ گیا ہے۔ امریکی ججوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ اگر آپ اپنے پیشے کا احترام نہیں کرتے، مالی بدعنوالی کا شکار ہیں، فیصلے آپ کے لالچ یا سیاسی وابستگی کے زیر اثر ہیں اور سب اہم یہ کہ آپ اپنے احتساب کے لیے بھی راضی نہیں تو کیوں نہ عوامی نمائندے ججز کی پولیسنگ کے لیے کوئی نظام بنائیں، انہیں افراد نہیں قانون کے سامنے جوابدہ کریں۔

ججز کے احتساب کے نظام پہ نظر ثانی کے لیے پاکستانی مقننہ کو بھی فوری سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ آتی جاتی حکومتوں میں سپریم کورٹ کے سیاسی فیصلوں سے یہ تو بہرحال واضح ہے کہ اس مشکل اور متنازع کام کے لیے کوئی وقت آئیڈیل نہیں، مگر کہیں سے تو ابتدا کرنی ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ