چیف جسٹس کے دفتر پر برادر ججوں کے سوال سنجیدہ: قانونی ماہرین

سپریم کورٹ کے دو ججوں کی جانب سے چیف جسٹس آفس کے ’ون مین شو‘ اختیارات کا جائزہ لینے کے نوٹ پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو صوبوں میں الیکشن سے متعلق از خود نوٹس پر اب فل کورٹ بننا چاہیے۔

29 جنوری، 2021 کی اس تصویر میں ایک شخص اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے پیر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق از خود نوٹس کیس میں اپنے اختلافی نوٹس میں کہا کہ وقت آ گیا ہے چیف جسٹس آفس کے ’ون مین شو‘ کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے۔

دو ججوں کی جانب سے چیف جسٹس آفس کے ’ون مین شو‘ اختیارات کا جائزہ لینے کے اختلافی نوٹ پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو صوبوں میں الیکشن سے متعلق از خود نوٹس پر اب فل کورٹ بننا چاہیے۔

دونوں ججوں نے اپنے اختلافی نوٹس کی تفصیلی وجوہات اور اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلے کی تائید کرتے ہیں اس لیے فیصلہ چار تین کی اکثریت سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو مضبوط کرنے کے لیے وقت آ گیا ہے کہ ہم اختیارات پر نظر ثانی کریں، سپریم کورٹ ایک شخص کے فیصلوں پر انحصار نہیں کرسکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ 184/3 کے اختیار سماعت کو ریگولیٹ کیا جائے۔ چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہو گی۔

’سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پرنہیں چھوڑا جا سکتا۔ سپیشل بینچ، آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل، ازخودنوٹس کے اختیار کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہو گی۔‘

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پنجاب اورخیبرپختونخوا میں انتخابات سےمتعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائی کورٹ زیرالتوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق ’ون مین شو ناصرف فرسودہ بلکہ ایک برائی بھی ہے۔ چیف جسٹس کا ون مین شو جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔

’ایک شخص کے ہاتھ میں بہت زیادہ طاقت سے ادارے کی خود مختاری غیر محفوظ ہوسکتی ہے۔

’ایک شخص کی پالیسیوں پرعملدرآمد عوام کے حقوق اور مفاد کے برخلاف ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ کی طاقت عوامی اعتماد پر منحصر ہے، ون مین شو مختلف آراء کو محدود کرتا ہے۔

’مشترکہ رائے سے ہونے والی فیصلہ سازی طاقت کا توازن برقرار رکھتی ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وسیع اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔

’ستم ظریفی ہے سپریم کورٹ قومی اداروں کےاختیارات کو ریگولیٹ کرنےکی بات کرتی ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی۔ سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔‘

جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ ’چیف جسٹس کے پاس ازخود نوٹس، بینچزکی تشکیل اور مقدمات فکس کرنے کا اختیار ہے، چیف جسٹس کی طاقت کے بے دریغ استعمال سے سپریم کورٹ کا وقار پست اور کڑی تنقید کی زد میں رہا، آئینی ادارے کے ممبران کے طور پر ہمارا ہرعمل تاریخ کا حصہ بنتا اور زیر بحث آتا ہے، موجودہ کیس کا فیصلہ جاری نہ کرنے کی وجوہات کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’ہم چار ججز کا فیصلہ آرڈر آف کورٹ ہے۔ یہ چار تین کے تناسب سےفیصلہ ہے جس پر عملدرآمد تمام متعلقہ فریقین پرلاگو ہوتا ہے جب کہ ہمارے برادر ججز کی رائے میں یہ فیصلہ تین دو کے تناسب سے ہے، ہم دو ججز کا فیصلہ جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے۔‘

تفصیلی فیصلے میں پانامہ کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’پانامہ کیس میں عدالت کا پہلا حکم تین دو کے تناسب سے آیا تھا، اختلاف کرنے والےدو ججز نے باقی پاناما کیس نہیں سنا تھا لیکن ان کو بینچ سے الگ نہیں کیا گیا تھا۔ پانامہ نظرثانی کیس بھی پھر ان دو ججز سمیت پانچ رکنی لارجر بینچ نے سنا تھا۔‘

28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ اپنےفیصلے میں کہہ چکی کہ ایک بار کازلسٹ ایشو ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

’ایک بار بینچ بن جانے کے بعد ججز کیس سننے سے معذرت کر سکتے ہیں، بینچ دوبارہ تب ہی بن سکتا ہے جب وہ رولز کے خلاف ہو، ججز کا بینچ میں شامل نا ہونے کا مطلب کیس سننے سے معذرت تصور نہیں کیا جاسکتا۔‘

فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ ’دو ججز نے انتخابات کی تاریخ پر لیے گئے ازخودنوٹس پر پہلے ہی فیصلہ دے دیا تھا، دو ججز نے بینچ میں بیٹھنے یا نا بیٹھنے کا اختیار چیف جسٹس کو سونپا تھا، دو ججز کا دیا گیا فیصلہ بینچ میں شامل نہ ہونے سے غیر موثر نہیں ہوا جبکہ جسٹس اعجازالااحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کیس سننے سے خود معذرت کی۔‘

فیصلہ تین دو کی اکثریت کا ہے یا چار تین کی اکثریت سے؟ 

انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔ 

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک بار پھر چیف جسٹس کا فل کورٹ تشکیل دینے سے انکار جو ان آئینی مسائل کی سماعت کرے اور بااختیار فیصلہ کرے، قوم میں مزید غیر یقینی اور الجھن کا باعث بنا ہے۔

’سپریم کورٹ اس مسئلے کے حل کا حصہ بننے کی بجائے اس میں اضافہ کرتی رہی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اب یہ فیصلہ تین دو کی نسبت سے ہو گا یا چار تین کی اکثریت سے؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ اب یہ اس بینچ کے نقطہ نظر پر منحصر ہوگا جو اس موجودہ کیس کی سماعت کر رہا ہے کہ آیا وہ پہلے کے فیصلے کو 4-3 یا 3-2 کے طور پر مانتے ہیں، جو بالکل مسئلہ ہے۔

’قانون کی تشریح اس بات پر منحصر نہیں ہونی چاہیے کہ آپ بنچ کی تشکیل کیسے کرتے ہیں۔ ہمیں یقین تب ہی ملے گا جب فل کورٹ بن جائے۔‘

وکیل طارق کھوکھر نے کہا کہ ’اس بات سے میں اختلاف کروں گا یہ فیصلہ چار تین کا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ بینچ اور تھا یہ بینچ اور ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کچھ فیصلوں کا تسلسل ہوتا ہے آج والا فیصلہ بغیر تسلسل کے ہے یہاں پانامہ بینچ کی مثال نہیں دی جا سکتی۔

184/3 کے اختیارات پر انہوں نے کہا کہ ’اس پر میں اتفاق کرتا ہوں چیف جسٹس کو نظر ثانی کرنا ہو گی۔ برادر ججز کو اتفاق ختم نہیں کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے اس وقت سپریم کورٹ میں واضح تقسیم ہے۔

’سمجھ سے بالاتر ہے کہ چیف جسٹس فل کورٹ تشکیل نہیں دیتے، اپنی مرضی کا کیس لگاتے ہیں، کس بینچ میں کون بیٹھے گا اس میں بھی انصاف نہیں ہو رہا، اس کے علاوہ کون سا بینچ کون سا کیس سنے گا اس میں بھی مساوی رویہ نہیں ہے۔‘

سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ پانامہ کیس میں دو ججوں کا فیصلہ آرڈر آف دی ڈے میں شامل تھا جبکہ اس میں ابھی تک آرڈر آف دی ڈے آیا ہی نہیں۔

’اب یہ تنازع بن چکا ہے کیونکہ اس کیس میں دو ججوں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے ازخود نوٹس کیس خارج کر دیا تھا۔

’اب یہ دلچسب صورت حال بن چکی ہے کیونکہ اب حالیہ درخواست جو آج سماعت کے لیے مقرر ہوئی یہ بھی تو پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق ہے تو پھر اس کا سٹیٹس کیا ہو گا کیونکہ اسی نوعیت کے مقدمے میں جسٹس اعجاز نے خود کو اس کیس سے الگ کیا تھا تو آج پھر دوبارہ انتخابات سے متعلق کیس میں وہ کیسے شامل ہوئے؟

’اب کل والی الیکشن کیس کی سماعت میں آج اس فیصلے کے اثرات ہوں گے۔'

شاہ خاور نے مزید کہا کہ ’اب یہ تین دو یا چار تین کی اکثریت کا فیصلہ کس نے کرنا ہے۔ تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ فل کورٹ بنائی جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ چیف جسٹس آفس پر بھی بہت بڑا سوال اٹھایا گیا ہے جو کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ ان کے اپنے برادر ججز نے اٹھایا ہے جو سنجیدہ بات ہے۔‘

مختصر اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا تھا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے پہلی سماعت کے بعد اپنے اختلافی نوٹ میں کہا تھا کہ ان کے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، وہ صرف اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے دیگر سینیئر ججز کی بینچ پر عدم شمولت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو سینیئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

’عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔‘ از خود نوٹس کی پہلی سماعت کے بعد اختلافی نوٹ میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی اس ازخود نوٹس کو بلاجواز قرار دیا تھا۔ 

پانچ رکنی بینچ کا کیا فیصلہ تھا؟

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کے یکم مارچ کو جاری فیصلے میں کہا گیا کہ صدر کا کے پی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کالعدم، جبکہ صدر مملکت کا 20 فروری کا آرڈر پنجاب کی حد تک درست ہے، اسمبلی گورنر کے حکم سےتحلیل ہو تو انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر کی ذمہ داری ہے، اگر اسمبلی گورنر کے حکم سے تحلیل نہ ہو تو انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری صدرِ مملکت کی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دیں، الیکشن کمیشن 90 دن کی ڈیڈلائن پرعمل کرتے ہوئے صدر کو  انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، اگر الیکشن کمیشن 90 دن میں انتخاب نہیں کراسکتا تو کم سے کم وقت میں انتخابات کی نئی تاریخ تجویز کرے، گورنر کے پی بھی الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا قبل از وقت ہے: جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ

 جسٹس اطہر من اللہ نے پہلی سماعت کے بعد اختلافی نوٹ میں کہا تھا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

’ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے نکتہ اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟

’اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں۔ ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔‘

 جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں۔

’کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیر اعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں: جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹس میں لکھا کہ دو صوبوں میں الیکشن سے متعلق درخواستیں لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

’اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے لہذا سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں، میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔‘

ازخود نوٹس کیس میں کب کیا ہوا: 

دو صوبوں میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے شروع کی تھی لیکن چار میں سے دو ججوں نے پہلی سماعت کے بعد خود کو کیس سے الگ کر لیا جبکہ دو کو چیف جسٹس نے ان کے اختلافی نوٹ کے بعد نئے بینچ میں شامل نہیں کیا۔

اس کے بعد پانچ رکنی بینچ موجود رہا جس نے مزید تین سماعتیں کیں۔

22 مارچ کو چیف جسٹس نے الیکشن میں تاخیر پر ازخود نوٹس لیا تھا اور 23 فروری کو پہلی سماعت ہوئی تھی۔ 

ازخود نوٹس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوالات اٹھائے کہ اسمبلی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینا کس کی آئینی ذمہ داری ہے ؟ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی کیا آئینی ذمہ داری ہے؟ یہ آئینی ذمہ داری ادا کیسے ہو گی؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

27 فروری کو تحریری حکم نامہ جاری ہونے اور بینچ تحلیل ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کے چار معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، لیکن عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا۔

دو اضافی نوٹ لکھنے والے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل بینچ میں موجود رہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے مزید بینچ کا حصہ رہنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑا تھا۔

اس کے علاوہ دو جج جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی، انہوں نے تنقید کی وجہ سے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔ 

28 فروری کو کیس کی سماعت مکمل ہوئی اور یکم مارچ کو ازخود کیس کا فیصلہ جاری کیا گیا جو تین دو کی اکثریت سے آیا۔

بیچ میں شامل چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر ایک طرف جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ 

میں نے بہت خطرناک چیز کی نشاندہی کی تھی: مریم نواز

پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے آج کی عدالتی کارروائی سے متلعق لکھا: ’جس ملک میں انصاف کے دو معیار ہوں، فیصلے چند مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں گے جن کا واحد مقصد عمران کی سہولت کاری ہے، تو پھر یہی ہو گا۔

’میں نے بہت خطرناک چیز کی نشاندہی کی تھی جس کی درستگی ضروری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان