مقبولیت کا ٹیسٹ کیس

اتحادی حکومت کو الیکشن تاخیر میں عمران خان کی بظاہر مقبولیت کے توڑ کا حل نظر آتا ہے تو عمران خان کو اپنی مقبولیت کے پائیدار ہونے کا خود ہی یقین نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حمایتی 19 مارچ 2023 کو کراچی میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی سیاست میں حالیہ کچھ دنوں میں جس طرح کی افراتفری، ہلچل دکھائی دے رہی ہے اس کی ماضی میں شاید کوئی مثال ملے۔

ایک طرف ملک مسلسل معاشی مسائل سے دوچار ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے معاہدے میں متواتر تاخیر سے معیشت میں استحکام ممکن نہیں لگ رہا، اسی طرح امن کی صورت حال بھی مخدوش ہے اور ان سب میں سیاسی افراتفری نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا ہے۔

سیاست پر اپنی تحریر کا آغاز کریں تو ہر طرف مایوسی ہی نظر آتی ہے کیونکہ جس طرح کے حالات بن چکے ہیں ایسے میں معاملات کا حل ہوجانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

حکومت اور اپوزیشن گذشتہ کئی دنوں سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور نہ صرف زبانی کلامی بلکہ بات اس سے کہیں آگے پہنچ چکی ہے۔ زمان پارک میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

ایک طرف تحریک انصاف نے جس طرح سے پولیس اہلکاروں کے خلاف محاذ آرائی کی اور ہنگامہ آرائی سے نہ صرف ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا بلکہ ملک کو انتشار کی جانب دھکیل دیا۔ دوسری جانب حکومتی ہٹ دھرمی بھی واضح ہے۔ چاہے وہ زمان پارک میں ہونے والا آپریشن ہو یا اس کے پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والا کریک ڈاؤن سب ہمارے سامنے ہے۔

ان  حالات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں ہونے والے صوبائی انتخاب ملتوی کرنے کے اعلان نے سب کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حسب توقع 30 اپریل کو پنجاب میں ہونے والے انتخابات کو 8 اکتوبر تک موخر کر دیا، جس کی وجہ انہوں نے معاشی و سلامتی کی صورت حال کے غیر واضح ہونے کو قرار دیا۔

 اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے کیے جانے والے اس فیصلے کی آئین میں گنجائش موجود ہے کیونکہ حال ہی میں اس موضوع پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کم سے کم تاخیر کے ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔

اب اس حکم کا کیا ہو گا؟ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے منافی ہے یا اس کی آئین میں کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟

اگر انتخابی کمیشن کے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو ادارہ اپنی جگہ پر حق پر ہے کیونکہ جب الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لیے پیسے نہیں ملیں گے اور سکیورٹی کے لیے مقررہ نفری نہیں ملے گی تو کمیشن اس صورت حال میں اگر انتخابات ملتوی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟

عدلیہ نے بھی الیکشن کے لیے اپنا ماتحت عملہ دینے سے معذرت کر لی۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات سب کے سامنے ہیں، امن امان کی صورت حال بھی اس وقت کافی مخدوش ہے۔ اب ایسے حالات میں الیکشن کمیشن انتخابات کیسے منعقد کرا سکتی ہے۔

انتخابات میں تاخیر کی آئین میں گنجائش ہو سکتی ہے کیونکہ ماضی میں بھی غیر معمولی حالات کے پیش نظر ملک میں انتخابات ملتوی ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر محترمہ بےنظیر بھٹو کی موت کے بعد ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کو ڈیڑھ ماہ تک آگے بڑھا دیا گیا تھا۔

اسی طرح اگر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دیکھیں تو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کم سے کم تاخیر کے ساتھ صوبائی الیکشن کا انعقاد کیا جائے لیکن عدالت نے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی تھی، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن نے کم سے کم تاخیر کو اپنی سوچ کے حساب سے طے کر کے انتخابات اکتوبر میں کرانے کی تاریخ دی ہے۔

اس وقت اصل سوال تو حکومت سے بنتا ہے کہ وہ الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن سے مکمل تعاون کیوں نہیں کر رہی؟

وزارت داخلہ، خزانہ سمیت تمام حکومتی سٹیک ہولڈرز نے انتخابات سے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں جس کے بعد مجبوراً الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ حکومت الیکشن کمیشن کو سکیورٹی اور بجٹ کیوں فراہم نہیں کر رہی، اس کا جواب دینا چاہیے اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حکومت خود بھی یہی چاہتی تھی کہ الیکشن ملتوی ہوں۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ن لیگ اور ان کے اتحادی روز اول سے ہی جلد انتخابات کے حق میں نہیں تھے بلکہ وہ تو ملک میں بیک وقت ایک ساتھ انتخابات کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔

جہاں حکومت الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتی وہیں اس کا یہ عذر بھی کافی حد تک قابل قبول ہے کہ ہمارے پاس تو اس وقت ملک چلانے کے پیسے نہیں ہیں تو انتخابات کے لیے پیسے کہاں سے لائیں؟

آئی ایم ایف معاہدے کی صورت حال ہمارے سامنے ہے، جہاں ان کے مطالبے روز بروز بڑھ رہے ہیں شرائط میں ہر روز ایک نئے سخت فیصلے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے میں روز بروز تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔

اب انہوں نے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ جب تک آپ کے دوست ممالک آپ کو مدد کی تحریری ضمانت نہیں دیں گے ہم آپ سے سٹاف لیول معاہدہ نہیں کریں گے۔ دوسری جانب دوست ممالک نے یہ آسرا دیا ہے کہ جب آئی ایم ایف کا معاہدہ ہو جائے گا تب ہم آپ کی مدد کریں گے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تحریک انصاف نے مسترد کر دیا اور فیصلے کو آئین سے متضاد قرار دے کر اس سلسلے میں سپریم کورٹ جانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر انتخابات میں تاخیر کروانے کے خاطر الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی ہے اور بجٹ فراہم نہیں کر رہی۔

عمران خان جہاں ایک طرف کہتے ہیں ملک ڈیفالٹ کر چکا ہے اور اتحادی حکومت نے معیشت کو ختم کر دیا ہے، اگر معیشت ڈیفالٹ ہو چکی ہے تو آپ کیسے انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومت سے الیکشن کمیشن کو پیسے فراہم کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ آپ سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے تو تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کرا دو اور اس کے لیے پیسے بھی دے دو۔ جب پیسے ہیں ہی نہیں تو حکومت کہاں سے دے گی۔

امن وامان کی بات کی جائے تو اس وقت حالات سب کے سامنے واضح ہیں، کیا خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورت حال میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ کیا ان حالات میں آپ وہاں انتخابی مہم کامیابی کے ساتھ چلا سکتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے فی الحال بالکل خاموشی چھائی ہوئی ہے اور وہاں سے اب تک اس سلسلے میں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اس خاموشی سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ سپریم کورٹ کمیشن کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرے گی اور فیصلہ کالعدم نہیں ہو گا۔

اگر حکومت الیکشن کے انعقاد میں پیسے نہ ہونے کا صرف بہانہ بنا رہی ہے تو اس کی وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت جو بظاہر تاریخ کی بلند ترین سطح پر دکھائی دے رہی ہے وہ اس سے خوفزدہ ہے۔

تاثر یہی مل رہا ہے کہ اس وقت اگر وہ انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو عمران خان سے عبرت ناک شکست کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اسی خطرے کے پیش نظر کہ کہیں خان واپس اقتدار میں نہ آ جائے، الیکشن کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

لیکن جمہوریت میں اس عمل کی کوئی گنجائش نہیں کہ عوام جس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور انہیں ان کے اس حق سے محروم رکھ کر انتخابات کا انعقاد مشکل بنا دیں۔

اتحادی حکومت کس حق سے عوام کو ان کے اس حق سے محروم رکھ سکتی ہے اور انتخابی عمل کو متنازع بنا سکتی ہے؟

اس صورت حال میں یہ بات بھی بنتی ہے کہ اگر عمران خان کو یقین ہیں کہ ان کی مقبولیت ریکارڈ بلند سطح پر ہے اور ان کی یہ مقبولیت حقیقی ہے اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تو انہوں نے کیوں فوری الیکشن کی رٹ لگائی رکھی ہے؟

الیکشن چاہے اپریل میں ہوں یا اکتوبر میں جب آپ کو اپنی کامیابی کا یقین ہے تو آپ کیوں ضد کر رہے ہیں؟

آپ کو تو اس صورت حال میں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور اس سے اپنے انتخابی مہم کے لیے بیانیہ بنائیں کہ حکومت میری مقبولیت سے خوفزدہ ہے اور مسلسل انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔

عمران خان نے لاہور میں جلسے کا اعلان بھی کر دیا ہے جو مینار پاکستان میں ہونا ہے۔ یہ جلسہ اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ گذشتہ دنوں لاہور میں جو کچھ ہوا جس سے یہ تاثر مل رہا تھا پنجاب کی نگران حکومت وفاق کے اشاروں پر کام کر رہی ہے اور پی ٹی آئی کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ نہیں مل رہی۔

اس قبل بھی عمران خان نے لاہور میں اپنے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے جلسے کا اعلان کیا لیکن نگران حکومت نے عین موقع پر شہر میں دفعہ 144 لگا کر ان کا مزہ کرکرا کر دیا۔

اس وقت ایک اور اہم موضوع پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہے جو کہ پیر کو ہونے والا ہے۔ اس اجلاس سے متعلق یہ پیش گوئی ہو رہی ہے کہ حکومت شاید انتخابات کے التوا کے لیے قرارداد پارلیمان کے سامنے پیش کرے۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کے اعلان کے بعد شاید یہ قرارداد نہ آئے۔

خیر اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا کیونکہ ہو سکتا ہے حکومت قرارداد لے آئے اور اس میں ملک کے انتخابات کے لیے بظاہر غیر موزوں حالات پر زور دیا جائے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس وقت پارلیمان کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہو۔ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے ہر جو خاموشی ہے وہ بھی شاید اسی سلسلے کڑی ہے۔ 

اس وقت یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کو دو آئینی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار کس نے دیا اور اس کی بنیاد کیا تھی؟ جب سیاسی جماعتیں بھی آمریت کے نقش قدم پر چل عوامی مینڈیٹ کو روندنے لگیں تو عوام اس کا شکوہ کس کریں؟

جب عوام نے آپ کو نمائندگی کا حق دیا تو آپ کسی ایک شخص کی ضد اور انا میں ان کو اس حق کو کیسے چھین سکتے ہیں؟ اس طرح تو ہر شخص اپنی ذاتی کی خاطر اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کر کے عوام کے جمہوری حق کو تلف کرتی رہے گی۔ اس فیصلے پر پارلیمنٹ میں قرارداد کیوں نہیں آئی؟

اس حوالے سے سپریم کورٹ نے 90 کی دہائی کے اوائل میں اس اصول کا اجرا کیا تھا کہ اگر اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ہے تو اس کے لیے آپ کے پاس ٹھوس وجوہات ہونی چاہییں۔ تو تحریک انصاف کے پاس اس سلسلے میں جواز کیا تھا کہ اس نے دو بڑے صوبوں کی آئینی اسمبلیوں کو توڑ دیا؟

جب 2018 میں عمران خان زیر اقتدار آئے، ساڑھے تین سال تک حکومت کی اس دوران ان کی جیسی بھی حکومت رہی وہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس وقت کی اپوزیشن نے سیاست حکمت عملی، کچھ خان کی اپنی کوششوں سے ان کے اقتدار کا تختہ تحریک عدم اعتماد کے جمہوری عمل کے ذریعے الٹا۔

اس موقعے پر تحریک انصاف نے اپنی سیاسی شکست کو تسلیم کر کے اور وقار کے ساتھ رخصت ہونے کی بجائے پہلے خودساختہ طور پر قومی اسمبلی توڑنے کے لیے آئین سے انحراف کیا اور جب وہ منصوبہ نہ چلا تو استعفے دے کر اپنی شکست کو امریکی سازش قرار دے کر سڑکو ں پر اتر آئی۔

جب اس سے کام نہ بنا تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی پارٹی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔

عمران خان کی جانب سے اقتدار کے حصول کے لیے حکمت عملی سے ملک میں افراتفری اور سیاسی غیریقینی صورت حال نے جنم لیا جو اب ماحول کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔ ملک میں اس وقت جس طرح کی پولرائزیشن چل رہی ہے اس میں تحریک انصاف اور عمران خان کا بڑا کردار ہے۔

اس ساری صورت حال میں الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے جو تاریخ یعنی آٹھ اکتوبر دی ہے، وہ کافی دلچسپ تاریخ ہے کیونکہ عام انتخابات کے لیے بنیادی تاریخ بھی یہی تصور کی جا سکتی ہے، دوسرا اس سے ایک ماہ قبل یعنی ستمبر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔

تیسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت تک صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب (جن کا تعلق عمران خان صاحب کی جماعت سے ہے اور وہ ان کے انتہائی قریبی اور وفادار ساتھی تصور کیے جاتے ہیں) بھی رخصت ہو چکے ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے بات نکلتی ہے جب اکتوبر میں انتخابات ہوں گے تو عمران خان کے دو انتہائی طاقتور اور اہم شخصیات کے ساتھ الیکشن میں جانے کا خواب معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

موجودہ حالات میں یہی مناسب لگتا ہے کہ سارے سیاسی فریق متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا احترام کریں اور الیکشن کی تیاریوں کا آغاز کر دیں۔ اس سلسلے میں حکومت بھی اس چیز کا خاص خیال رکھے کہ تمام جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ملے، ساری جماعتوں کو ان کا حقیقی مینڈیٹ بغیر کسی رکاوٹ کے مل سکے اور متنازع الیکشن کا سلسلہ بند ہو۔

اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک میں 70 کی دہائی کے بعد ایسے غیر متنازع اور شفاف الیکشن ہو سکیں جس پر تمام سٹیک ہولڈرز کا بھر پور اعتماد ہو اور سب فریق اس کو بغیر کسی شکوک شبہات کے تسلیم کر لیں۔

اس فارمولے پر چل کر نہ صرف عوام کے مینڈیٹ کو عزت ملے گی بلکہ اس کے ذریعے ہی ملکی مسائل بہتر طور پر حل ہو سکیں گے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ حالات اور ہر لمحہ بدلتی صورت حال ہر ایک کی مقبولیت کا ٹیسٹ کیس ہے، چاہے وہ عمران خان ہو یا شریف فیملی یا بھٹو خاندان۔ پی ڈی ایم حکومت کو الیکشن تاخیر میں عمران خان کی بظاہر مقبولیت کے توڑ کا حل نظر آتا ہے تو عمران خان کو اپنی مقبولیت کے پائیدار ہونے کا خود ہی یقین نہیں۔

انہیں یہ یقین نہیں کہ آئندہ چھ ماہ تک ان کی بظاہر عوامی مقبولیت کا گراف اسی طرح برقرار رہے گا یا نہیں، اسی لیے وہ الیکشن فوری اور اپنی مرضی کے تحت چاہتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ