الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 62 کے تحت امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ میں فیڈرل بیورو آف ریونیو میں سکروٹنی سیل قائم کر دیا ہے اور اس سلسلے میں اچھی شہرت کے حامل تین اعلیٰ افسران کی خدمات ایف بی آر کے چیئرمین سے مشاورت کے بعد مستعار لی گئی ہیں۔
ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کے چیف ریونیو آپریشن ارشد نواز اس سیل کے چیئرمین ہوں گے جب کہ سیکنڈ سیکرٹری (ان لینڈ ریونیو آفیسر) فرحان ستار کوآرڈینیٹر تعینات کر دیے گئے ہیں۔
ایف بی آر نے سیل کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ انتخابی امیدواروں کو اپنی اہلیت کے لیے سکروٹنی سیل سے سرٹیفیکیٹ لازماً لینا ہوگا۔
اس مقصد کے لیے ملک بھر کے ان لینڈ ریونیو کمشنر معاملے کی نگرانی کریں گے۔ دو افسران پر مشتمل فوکل ڈیسک قائم کیا جائے گا جو الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ افسران سے رابطے میں رہے گا۔
اس اہم سیل کے ذریعے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی میں درج تمام کوائف کی چھان بین کرتے ہوئے امیدواروں نے ایف بی آر میں بطور فائل ہولڈر جو دستاویزات جمع کروائی ہیں، ان سے موازنہ کیا جائے گا۔ شکوک و شبہات ملنے پر قومی احتساب بیورو سے بھی معاونت حاصل کی جائے گی۔
بنگلہ دیش نے 2008 کے انتخابات میں میں حصہ لینے والوں کے لیے اسی طرز کا پروفارمولا ایجاد کیا تھا اور الیکشن میں حصہ لینے والوں کو اپنے اثاثہ جات کی جانچ پڑتال اس قسم کے اداروں سے حاصل کرنا پڑتی تھی اور ریٹرننگ افسران کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے اور ان کے فیصلوں کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان میں ایف بی آر نے جو سیل قائم کیا ہے، اس طرز کی تجویز میں نے 2013 کے الیکشن کے مرحلے پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو وفاقی محتسب انکم ٹیکس شعیب سڈل کے ذریعے بھجوائی تھی اور شعیب سڈل نے تجویز پیش کی تھی کہ ان کا ادارہ سکروٹنی کے مرحلے کے دوران ان سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
لیکن یہ تجویز الیکشن کمیشن کے ارکان نے منظور نہیں کی تھی۔ اس وقت کا الیکشن کمیشن انتہائی متنازع تھا، جس کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک کی موجودہ صورت حال سیاسی انتشار، خلفشار اور سیاسی پارٹیوں میں عدم تعاون کی بنا پر دونوں صوبوں میں وقت مقررہ پر الیکشن ہونے کے امکانات سوالیہ نشانات بنے ہوئے ہیں۔
پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں انتخابات اپنی طے شدہ تاریخوں بالترتیب 30 اپریل اور 28 مئی پر ہوتے ہوئے زمینی حقائق کے مطابق نظر نہیں آ رہے ہیں، جن میں امن و امان کی صورت حال، مالی اور انتظامی مسائل شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن نے متعلقہ اداروں سے مشاورت مکمل کر لی ہے، اب تک الیکشن کمیشن حساس اداروں کی اہم شخصیات سے بھی مشاورت مکمل کر چکا ہے۔ بعض میڈیا میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ انتخابی کمیشن حکومت کے طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے معاملہ سپریم کورٹ میں بھجوائے گا۔
میری رائے میں ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر اداروں کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن ملک کے مفاد میں کوئی اہم فیصلہ کرتا ہے تو اسے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 158 میں مکمل اختیارات دیے گئے ہیں جس کی بنا پر الیکشن کمیشن ازخود الیکشن کی تاریخ میں ردوبدل کرنے کا مجاز ہے اور اگر الیکشن کمیشن پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا چاہے تو ناگزیر حالات کے تحت وہ ایسا کرنے کا مجاز ہے اور صدر مملکت کو محض اطلاع دینے کا پابند ہے۔
صدر کی منظوری اس سے مشروط نہیں ہے لہٰذا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور پر امن ماحول میں الیکشن کروانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کا سہارا لے سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔