انتخابات کے لیے ماحول سازگار نہیں، گورنر خیبرپختونخوا کا مراسلہ

الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی نو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں گورنر حاجی غلام علی نے کہا ہے کہ ’سکیورٹی کی صورت حال نازک ہے اور اضافی سکیورٹی اہلکار دستیاب نہیں۔‘

گورنر خیبرپختونخوا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کا خدشہ ہے (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے جمعے کو چیف الیکشن کمشنر کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے جس میں ’سکیورٹی کی نازک صورت حال‘ سے متعلق بتایا گیا ہے جبکہ چیف سیکرٹری اور آئی جی نے خبردار کیا ہے کہ ’اپریل سے اکتوبر تک دہشت گردی کی کارروائیاں تیز تر ہونے‘ کا خدشہ ہے۔

گورنر خیبر پختونخوا نے یہ رپورٹ چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ 14 مارچ کو ہونے والے مشاورتی اجلاس کی روشنی میں ارسال کی ہے۔

الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی نو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سکیورٹی کی نازک صورت حال ہے اور اضافی سکیورٹی اہلکار دستیاب نہیں۔‘

رپورٹ میں ملک کو معاشی طور پر درپیش مسائل کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس ضمن میں کہا گیا ہے کہ حلقہ بندی بھی ہونا باقی ہیں۔ ’ایسے میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل ان چیلنجز کو حل کیا جائے۔‘

ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے کہا ہے کہ الیکشن سے متعلق ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس کا آئین اور الیکشن ایکٹ کے تحت حل تلاش کیا گیا۔

اس سے قبل 14 مارچ کو الیکشن کمیشن سے مشاورتی اجلاس کے بعد گورنر خیبر پختونخوا نے صوبے میں انتخابات کے لیے 28 مئی کی تاریخ کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں چیف الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ گورنر خیبر پختونخوا نے باضابطہ طور پر انتخابات کی تاریخ تجویز نہیں کی ہے۔

تاہم اب الیکشن کمیشن کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں انتخابات کی تاریخ وزارت دفاع اور داخلہ سمیت متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے کر مقرر کیے جانے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’چند ماہ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ختم ہونے‘ کے نکتے کو بھی مدنظر رکھنے کا کہا گیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی سے متعلق رپورٹ میں ’دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے‘ اور ’ضم شدہ قبائلی اضلاع میں سکیورٹی کی نازک صورت حال‘ کا بتایا گیا ہے۔ 

رپورٹ میں سرحد پار سے دہشت گرد گروپوں کے ضم اضلاع میں آباد ہونے اور ان علاقوں میں رہائش پذیر ہونے والوں کو دیگر اضلاع کے مقابلے میں 100 فیصد زیادہ خطرہ ہونے سے متعلق بھی بتایا گیا ہے۔

’ان خطرات کے باعث سیاست دانوں اور پولنگ سٹاف کی آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں خطرات سے خوفزدہ ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ سب کو برابری کا میدان مہیا نہیں۔ دہشت گرد سیاسی جماعتوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ مفاہمتی عمل کے نام پر واپس لانے والوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘

الیکشن کے انعقاد کی مخالفت؟

گورنر خیبر پختونخوا نے دیگر سیاسی جماعتوں سے متعلق رپورٹ میں کہا ہے کہ ’تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے سکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات کم ہونے تک الیکشن کے انعقاد کی مخالفت کی ہے۔ شیخ رشید، سراج الحق، آفتاب شیرپاؤ اور عمران خان نے بھی ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد کی بات کی ہے۔‘

دہشت گردوں کی کارروائیوں میں ’اپریل سے اکتوبر تک اضافے‘ کا خدشہ

الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق اجلاس ہوا ہے۔ 

اجلاس میں چیف سیکریٹری اور انسپیکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا نے کہا کہ امن و امان کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ آئندہ انتخابات پرامن ہوں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ’دہشت گرد Spring Offensive کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اس لیے ان کی کارروائیاں اپریل سے اکتوبر تک تیز تر ہو جاتی ہیں۔‘

معاشی صورت حال سے متعلق چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے کہا کہ صوبائی حکومت کو 19 ارب روپے کے مالی خسارے کا سامنا ہے، جبکہ اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے تقریباً 1.6 ارب مزید درکار ہوں گے اور اس کو پورا کرنا صوبائی حکومت کے لیے مشکل ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔ 

اجلاس میں بتایا گیا کہ امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے اور  پولیس کو الیکشن کے انعقاد کے لیے نفری کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ سال 2018 کے الیکشن کے وقت امن و امان  کی صورت حال  موجودہ حالات سے بہت بہتر تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ادارے کو صوبائی حکومت کو درپیش مشکلات کا علم ہے۔ متعلقہ داروں سے مشاورت ہو چکی ہے، الیکشن کمیشن جلد اس سلسلے میں مناسب فیصلہ کرے گا۔ 

خیبر پختونخوا کے گورنر کی جانب سے بھیجی گئی رپورٹ میں ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے متعلق تفصیلات بتائی گئی ہیں۔

صوبے میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں؟

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2018 جو کہ انتخابات کا سال تھا، اس میں دہشت گردی کے 87 واقعات ہوئے جبکہ 2022 میں 495 واقعات پیش آئے۔ الیکشن کے سال 2023 میں دہشت گردی کے واقعات 600 سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ 

’خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان سوات اور تحریک طالبان باجوڑ دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ تحریک طالبان محمد، تحریک طالبان طارق گیدر گروپ، آئی ایس کے پی، جماعت الاحرار، حزب الاحرار، لشکر اسلامی، القاعدہ انڈین برصغیر، دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ لشکر جھنگوی اور حافظ گل بہادر بھی دہشت گردی کی کاررائیوں میں ملوث ہیں۔ صوبے میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظمیں موجود ہیں۔‘

رپورٹ میں مغربی سرحد سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کی خیبر پختونخوا میں کارروائیوں کے لیے دراندازی کے لیے تیار ہونے اور ’سب سے زیادہ خطرات سرحد پار سے ہونے‘ سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست