کیا الیکشن کمیشن صدر کے فیصلے کو مسترد کر دے گا؟

بعض آئینی ماہرین صدر کے مواخذے کا ذکر کر رہے ہیں، موجودہ سیاسی تناؤ کی کیفیت میں ایسی کوئی بھی کارروائی دانش مندی نہیں ہو گی۔

صدر مملکت نے بادی النظر میں صوبائی اسمبلیوں کی تاریخ کا اعلان کر کے آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کو مدنظر نہیں رکھا، جس پر ان کے خلاف قانون شکنی کے حوالے سے سوالیہ نشانات اٹھائے جا رہے ہیں (تصویر: صدر پاکستان آفیشل ویب سائٹ)

 

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دے تو دی مگر اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ بامعنی مشاورت نہیں کی۔ 

دوسری جانب صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48 (1) کے تحت کوئی کام وزیراعظم پاکستان کے مشورے کے بغیر نہیں کر سکتے۔

صدر مملکت کے یک طرفہ طور پر صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی تاریخ دینے سے معاملہ سنگین رخ اختیار کر گیا ہے۔ صدر مملکت کو دونوں صوبوں میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 105 کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں صوبائی گورنروں کا اجلاس ایوانِ صدر میں منعقد کرنا چاہیے تھا اور گورنروں کی رائے کے مطابق کوئی معنی خیز حل نکالا جا سکتا تھا۔

آئین کے آرٹیکل 224، 224، 48 (1) اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت صدر قومی اسمبلی کی تحلیل ہونے کے بعد عام انتخاب کی تاریخ دینے کے مجاز ہیں، لیکن 18ویں ترامیم کے بعد صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کو ہی یہ اختیارات حاصل ہیں۔

صدر مملکت نے بادی النظر میں صوبائی اسمبلیوں کی تاریخ کا اعلان کر کے آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کو مدنظر نہیں رکھا، جس پر ان کے خلاف قانون شکنی کے حوالے سے سوالیہ نشانات اٹھائے جا رہے ہیں۔

چونکہ الیکشن کمیشن کو بھی صدر مملکت کے حالیہ اقدامات پر غور کرنے کے لیے اپنے اجلاس میں فیصلہ کرنا ہو گا، اس صورت حال میں بظاہر یوں نظر آ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن، صدر کے اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کرسکتا ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدر کے تاریخ دینے کی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہے۔

وفاقی حکومت صدر مملکت کے یک طرفہ الیکشن کی تاریخ دینے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کی مجاز ہے اور سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 183(3) کے تحت ریاست کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 105 کی تشریح کر کے ملک کو انتخابی بحران سے نکالنے کے لیے اہم فیصلہ صادر کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 51 کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جس کے تحت مردم شماری بھی نازک ترین مسئلہ درپیش ہے، جس کے تحت مردم شماری کا ضمنی نتیجہ جاری ہونے کے بعد ہی الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے۔

لہٰذا آئین کا آرٹیکل 51 بھی دونوں صوبوں میں عام انتخابات کروانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ صدر مملکت نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کا سہارا لیا اور انہوں نے آئین کے آرٹیکل 50 کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔

آئین کے آرٹیکل 51 کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر مردم شماری کا عمل 30 اپریل تک مکمل نہ ہو سکا تو پھر الیکشن کمیشن مقررہ وقت پر حلقہ بندیاں نہیں کروا سکے گا۔

حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو کم سے کم چار ماہ کا عرصہ درکار ہو گا اور اگست 2023 تک حلقہ بندیوں کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہو جائے گا اور الیکشن نومبر 2023 میں اختتام پذیر ہو سکتے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت کے ادارے محکمہ شماریات نے مردم شماری 30 اپریل تک مکمل نہ کی تو پھر قومی سطح پر آئینی بحران پیدا ہو جائے گا اور ملک کے عام انتخابات کی تاریخ میں ردوبدل کرنا ہو گا۔

صدر مملکت کو چاہیے کہ مردم شماری کو مقررہ وقت پر مکمل کروانے کے لیے متعلقہ وزارت کے اعلیٰ حکام سے مشاورت کریں۔

بعض آئینی ماہرین صدر کے مواخذے کا ذکر کر رہے ہیں، موجودہ سیاسی تناؤ کی کیفیت میں ایسی کوئی بھی کارروائی دانش مندی نہیں ہو گی۔

تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے ارکان قومی اسمبلی کے 73 کے لگ بھگ ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے احکامات کو لاہور ہائی کورٹ نے معطل کر کے ان ارکان قومی اسمبلی کے دروازے پارلیمنٹ ہاؤس کے لیے کھول دیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ آنے کے بعد ان حلقوں میں ضمنی انتخابات کا شیڈیول بھی معطل ہو جائے گا۔ اصولی طور پر یہ تحریک انصاف کی بہت بڑی عدالتی کامیابی ہے۔

اب تحریک انصاف کے 73 کے لگ بھگ ارکان قومی اسمبلی اپنی بحالی کے بعد قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن کی نشست سنبھالنے کے لیے قومی اسمبلی کے سپیکر پر دباؤ ڈالیں گے، عمران خان لیڈر آف اپوزیشن کے لیے شاہ محمود قریشی کو آگے لائیں گے اور اسی طرح وفاقی سطح پر نگران سیٹ اپ کی تکمیل میں تحریک انصاف کا اہم کردار ہو گا تو ممکن ہے کہ حکومت قبل از وقت قومی انتخابات کروانے پر مجبور ہو جائے۔

صدر مملکت کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے پر جو آئینی بحران پیدا ہوا ہے اس کی نظیر صدر مملکت کی 2019 میں الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر کے حوالے سے بھی ملتی ہے۔

الیکشن کمیشن کی تشکیل کا واضح طریقہ آئین کے آرٹیکل 213 میں واضح ہے۔ الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کا مرحلہ آیا تو آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق لیڈر آف ہاؤس اور لیڈر آف اپوزیشن کی مشاورت سے ہی تقرر ہونا تھا۔

عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے ملنے سے انکار کر دیا اور پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی اور الیکشن کمیشن غیر فعال ہو گیا۔

اس کے بعد صدر مملکت نے ازخود دو ارکانِ الیکشن کمیشن کا تقرر کر کے آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی کر دی۔

جب یہ دو ارکان الیکشن کمیشن میں بمعہ صدارتی نوٹیفیکیشن پہنچے تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے ان کی تقرری منسوخ کر دی اور صدارتی فرمان کو ناقابلِ عمل قرار دے دیا، جس کے بعد دونوں نامزد ارکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی کی۔ 

صدر مملکت کو دونوں صوبوں میں الیکشن کی تاریخ دیتے وقت آئین و قانون کی متعلقہ شقوں کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ میری دانست میں الیکشن کمیشن صدر مملکت کے صدارتی فرمان کو مسترد کر دے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر