عدالت کے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے: چیف جسٹس

ملک میں ایک ہی روز انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ’بات چیت کا عمل سیاسی جماعتوں پر چھوڑتے ہیں، ہم مناسب حکم جاری کریں گے۔‘

ملک میں ایک ہی روز الیکشن کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جمعے کو سپریم کورٹ  کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’بات چیت کا عمل سیاسی جماعتوں پر چھوڑتے ہیں، ہم مناسب حکم جاری کریں گے۔‘

سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ’ہم سیاسی عمل میں مداخلت نہیں چاہتے۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

آج ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔‘ 

انھوں نے کہا کہ انتخابات ایک ہی وقت کرانے سے متعلق اس وقت جو نکات اٹھائے جا رہے ہیں وہ پہلے عدالت کے سامنے رکھے ہی نہیں گئے۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر اس معاملے کو سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیا جائے تو ’کیا عدالت قانون پر عمل درآمد نہ کروائے؟‘ 

سپریم کورٹ پر سینیٹ میں بل منظور

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے جعمے کے اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج کے دوران سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی کا بل سینیٹ میں منظور کر لیا۔ بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 32 اور مخالفت میں 21 ووٹ آئے۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بل پیش کیا جوکہ اجلاس سے قبل جاری دن کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔

اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور شدید احتجاج کیا اور  چیئرمین ڈائس کے سامنے توہین عدالت نامنظور کے نعرے لگائے۔

نئے بل کے تحت سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست فیصلہ سنانے والے بینچ سے بڑا بینچ سنےگا، نظرثانی دائرکرنے والے درخواست گزار کو اپنی مرضی کا وکیل مقررکرنےکا حق ہوگا، جس کےخلاف اس قانون سے قبل آرٹیکل 184 تھری کے تحت فیصلہ آیا ہو وہ درخواست دے سکےگا، نظرثانی کی درخواست فیصلےکے 60 روز کے اندر دائر کی جائے گی۔

یہ بل قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور ہو چکا ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس موقع پر آئین کی شق 188 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مجلس شوریٰ کے کسی بھی قانون پر عمل درآمد اور سپریم کورٹ کے قوانین پر عدالت عظمیٰ کو مزید بااختیار بنانے اور اس کے کسی بھی حکم نامے پر فیصلے پر نظرثانی کا اختیار دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ قانون سازی طریقہ کار کے مطابق کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت عدالتی احکامات پرعملدرآمد کرنے کی پابند ہے‘ اور عدالت ’آئین پر عمل درآمد کے لیے قربانیوں سے دریغ نہیں کرے گی۔‘ 

حکمران اتحاد کی جانب سے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مہلت دی جائے تاکہ ہم کوئی راستہ نکال سکیں۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں۔ یہ ہفتوں یا دنوں کی بات ہے جس پر معاملہ اٹکا ہوا ہے۔‘

جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے عدالت میں کہا کہ ’ہم پہلے ہی کئی باتیں مان چکے ہیں جن میں ایک ہی روز انتخابات اور ان کے نتائج کو قبول کرنا شامل ہے۔ ہم مذاکرات میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔‘

اس موقعے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ ’انہیں مہلت دی جائے تاکہ یہ کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔‘

اس پر عدالت نے کہا کہ ’ہم ایک دو روز میں ایک مناسب حکم جاری کریں گے۔‘ جس کے بعد سماعت کو ختم کر دیا گیا۔

سابق وزیر قانون اور سینیئر قانون دان فاروق نائیک نے سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے احاطے میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگر ایک ہی وقت انتخابات نہ ہوئے تو اس صورت میں الیکشن کے عمل پر بہت سے سوالات اٹھیں گے۔ 

’ہارنے والی جماعتیں ہیں وہ اس عمل کو قبول نہیں کریں گی اور ایک بہت بڑا سیاسی، آئینی اور قانونی بحران شروع ہو جائے گا۔‘ 

اس معاملے پر سپریم کورٹ میں گذشتہ سماعت 27 اپریل کو ہوئی تھی۔

عید کی چھٹیوں کے بعد سماعت ایک ایسے وقت ہوئی جب حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک ہی وقت پر انتخابات کے لیے ہونے والے مذاکرات پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

سپریم کورٹ میں ایک شہری سردار کاشف خان کی دائر کردہ پیٹیشن پر، جس میں پورے ملک میں ایک دن انتخابات کروانے کی استدعا کی گئی تھی کو منظور کرتے ہوئے جمعے کے لیے سماعت مقرر کی گئی تھی۔

پیٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ’ملک میں انصاف، برابری اور آئینی تقاضوں کے مطابق چاروں صوبوں اور قومی اسمبلی کے عام انتخابات ایک ہی تاریخ کو کروائے جائیں۔‘

جمعرات کو ہی عدالت نے 27 اپریل کی سماعت کے بارے میں تحریری حکم نامہ بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ’عدالت عظمی پنجاب میں انتخابات کے بارے میں چار اپریل کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے چار اپریل کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرائے جائیں۔‘

حکومت کی طرف سے اب تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ’پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو انتخابات کرانا ممکن نہیں کیوں کہ ان کے لیے درکار مالی وسائل گذشتہ مالی سال کے بجٹ میں مختص نہیں کیے گئے اور نہ ہی سکیورٹی صورت حال اس وقت انتخابات کی اجازت دیتی ہے۔‘

الیکشن کمیشن نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے کہا کہ ’عدالت کمیشن کی جانب سے نظر ثانی کی اپیل فوری طور پر منظور کرتے اپنے چار مئی کے فیصلے کو انصاف اور برابری کے مفاد میں واپس لے۔‘

ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیاں جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کی حکومتیں تھیں، تحلیل کر دی گئی تھی اور سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا کہا تھا لیکن خیبر پختونخوا میں انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی تھی۔

حکومت میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے چاہییں اور اسی مقصد کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے وفود کے درمیان مذاکرات کے تین دور بھی ہو چکے ہیں جو اب تک بے سود رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان