یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے اتوار کو تصدیق کی ہے کہ روس نے باخموت شہر کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ماسکو کی نجی فوج ’واگنر گروپ‘ کی روس کی باقاعدہ فوج کی مدد سے آٹھ ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد باخموت پر قبضہ کیا گیا۔ اس لڑائی کے نتیجے میں شہر تباہ ہو چکا ہے۔
صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اگرچہ باخموت یوکرین کے ہاتھ سے نکل گیا ہے لیکن ’آپ کو سمجھنا ہو گا کہ وہاں کچھ نہیں بچا۔ انہوں نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ اب باخموت صرف ہمارے دل میں باقی ہے۔ اُس جگہ پر کچھ نہیں ہے۔‘
یوکرین کے صدر جاپان کے شہر ہیروشیما میں امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ گروپ سیون کے سربراہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
قبل ازیں روسی وزارت دفاع نے اتوار کو کہا تھا کہ نجی فوج واگنر کی فورسز نے روسی فوج کی مدد سے یوکرین کے شہر باخموت پر قبضہ کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر وزارت کا بیان ویگنر کے سربراہ ایوگنی پریگوزن کے اسی طرح کے دعوے کے تقریباً آٹھ گھنٹے بعد آیا۔
اس وقت یوکرینی حکام کا کہنا تھا کہ باخموت کے لیے لڑائی جاری ہے۔
مشرقی یوکرین میں باخموت شہر کے لیے آٹھ ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی یوکرین کے تنازعے کی سب سے طویل اور شاید سب سے زیادہ خونریز جنگ ہے۔
روسی وزات دفاع نے اپنے بیان میں باخموت کے لیے سوویت کا دور کا نام ’ارتیوموسک‘ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’ارتیوموسک ٹیکٹیکل سمت میں ویگنر گروپ کمپنی کی ٹیموں نے جنوبی جنگی گروپ کے توپ خانے اور فضائیہ کی مدد سے ارتیوموسک شہر کو آزاد کروانے کی کارروائی مکمل کر لی ہے۔‘
روسی سرکاری خبر رساں ایجنسیوں نے کریملن کی پریس سروس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ولادی میر پوتن ’ارتیوموسک کی آزادی کا آپریشن مکمل ہونے پر واگنر حملہ آور دستوں سمیت روسی مسلح افواج کے یونٹوں کے تمام اہلکاروں کو مبارکباد دیتے ہیں جنہوں نے آپریشن کی تکمیل کے لیے ضروری مدد اور مکمل تحفظ فراہم کیا۔‘
قبل ازیں ٹیلی گرام پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں واگنر کے سربراہ ایوگنی پریگوزن نے کہا کہ شہر ہفتے کی دوپہر کے قریب مکمل روسی کنٹرول میں آ گیا۔
انہوں نے تقریباً نصف درجن جنگجوؤں کے ساتھ بات چیت کی۔ پس منظر میں تباہ شدہ عمارتیں اورکچھ فاصلے پر دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویڈیو سامنے آنے کے بعد یوکرین کی مشرقی کمان کے ترجمان سیری شیریواتی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ روس کی پرائیویٹ فوج کے سربراہ کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ یوکرین کی فوجی یونٹیں باخموت میں لڑ رہی ہیں۔‘
فیس بک پر ایک بیان میں، یوکرین کے جنرل سٹاف نے کہا تھا کہ ’باخموت شہر کے لیے شدید لڑائی بند نہیں ہوئی۔‘
ادھر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے کہا کہ ’یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پریگوزن نے کہا ہو کہ ’ہم نے سب کچھ چھین لیا ہے اور غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا واگنر کے سربراہ کے بیان کا مقصد زیلنسکی کے انتہائی نمایاں حالیہ غیر ملکی دوروں سے توجہ ہٹانا ہے جن میں ہفتے کو جاپان میں گروپ آف سیون سربراہی اجلاس میں یوکرینی صدر کی شرکت بھی شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ باخموت پر روس کا قبضہ یوکرین کے لیے دھچکا ہوگا اور روس کو حکمت عملی کے اعتبار سے کچھ فوائد حاصل ہوں گے لیکن یہ قبضہ جنگ کے نتائج کے لیے فیصلہ کن ثابت نہیں ہوگا۔
روسی افواج کو اب بھی یوکرین کے زیر انتظام دونیتسک کے باقی ماندہ علاقے پر قبضہ کرنے کا بہت بڑا مرحلہ درپیش ہے جس میں کئی بھاری دفاعی انتظامات والے علاقے بھی شامل ہیں۔
دونباس، دونیتسک اوراس کے ہمسایہ لوہانسک کے صوبے پر مشتمل علاقہ ہے۔ روس نے یوکرین کے صنعتی مرکز کا جہاں 2014 میں علیحدگی پسند بغاوت شروع ہوئی، ستمبر میں غیر قانونی طور پر الحاق کر لیا تھا۔