آرمی چیف سمیت سب سے مذاکرات چاہتا ہوں: عمران خان

آپ کو نہیں لگتا کہ آرمی کا چیف کا عوامی طور پر نام لینا ایک ذاتی معاملہ بنتا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف کے بیانات نے بدقسمتی سے اس معاملے کو ذاتی بنا دیا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پیر کو کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں وزیراعظم غیر متعلق ہیں کیونکہ تمام فیصلے آرمی چیف کر رہے ہیں۔  

سابق وزیر اعظم عمران خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’میں ایک سیاستدان ہوں، آرمی چیف، اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی مذاکرات چاہتا ہوں، لیکن تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور مجھے خدشہ ہے یہاں بات کرنے کو کوئی ہے ہی نہیں۔‘

یہ بات انہوں نے تب کہی جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ ’کیا آپ آرمی چیف یا وزیراعظم سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان (آرمی چیف) کے بیان پہلے ہی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، بیانات خوفزدہ کرنے والے ہیں۔ اگر آپ پڑھیں تو وہ کہہ رہے ہیں کہ، جو بھی ہو وہ ہر صورت میری پارٹی پی ٹی آئی ختم کر دیں گے۔ آخری چند دنوں میں یہ چیز سامنے آئی ہے۔

’تو پھر آپ کس سے بات کریں گے؟ وزیراعظم کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ بس کٹھ پتلیاں ہیں۔‘

یہ سوال پوچھے جانے پر کہ ’آپ پھر بھی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں؟‘ عمران خان نے جواب دیا کہ ’ہاں، سیاستدان کو ہر وقت کسی کے بھی ساتھ  مذاکرات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیوں کہ سیاستدان اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرتے ہیں نہ کہ بندوقوں کے ذریعے۔‘

واضح رہے کہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب 14 مئی 2023 کو جیو ٹی وی سے انٹرویو میں بات کرتے ہوئے یہ کہہ چکی ہیں کہ ’عمران خان اپنی سیاست کے لیے پاکستان فوج کو بیچ میں گھسیٹ رہے ہیں اور موجودہ آرمی چیف عمران خان سے بند کمروں میں نہیں ملنا چاہتے۔‘

’آپ کو نہیں لگتا کہ آرمی کا چیف کا عوامی طور پر نام لینا ایک ذاتی معاملہ بنتا جا رہا ہے؟‘ اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کے بیانات نے بدقسمتی سے اس معاملے کو ذاتی بنا دیا ہے۔ میں نے ان کے خلاف کوئی منفی بیان نہیں دیا، میں نے صرف یہ کہا تھا جب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے اٹھایا گیا، اغوا کیا گیا، تو یہ پولیس نے نہیں آرمی نے کیا تھا۔ آرمی چیف کے حکم کے بغیر آرمی کوئی کام نہیں کر سکتی۔‘

عمران خان نے مزید کہا کہ ’میں نے صرف یہی کہا تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا تھا، یہ حقیقت ہے، لیکن میں نے کوئی تضحیک آمیز بیان نہیں دیا۔‘

یاد رہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے 10 مئی 2023 کو پاکستان فوج کی جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’چیئرمین تحریک انصاف کو نیب کے اعلامیے کے مطابق، کل اسلام آباد ہائی کورٹ سے قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا۔‘

منگل کو اسلام آباد آنے پر گرفتاری کے حوالے سے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے مجھے گرفتار کیے جانے کا 80 فیصد امکان ہے، بے شک میرے خلاف کوئی کیس نہیں ہے، تمام کیسز میں مجھے ضمانت مل چکی ہے، لیکن آپ جانتے ہیں اس وقت پاکستان میں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، یہ جنگل کا قانون ہے۔ انہوں نے میری تمام سرکردہ قیادت کو گرفتار کرلیا ہے۔‘

چیئرمین تحریک انصاف نے مزید کہا کہ ’درحقیقت 10 ہزار سے زائد پی ٹی آئی ورکرز اور سپورٹرز اس وقت بغیر کسی الزام کے جیل میں ہیں۔ انہیں بس اٹھا لیا گیا ہے۔ وہ عدالت سے ضمانت لیتے ہیں اور جیسے ہی جیل سے باہر آتے ہیں انہیں دوبارہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہ جو بھی ہو رہا ہے، غیرقانونی ہے۔‘

’عدالتیں آخری امید ہیں، لیکن حکومت عدالتوں کا حکم نہیں مان رہی۔ جب عدالت ریلیف دیتی ہے تو حکومت کوئی پرواہ نہیں کرتی۔‘

جب سوال کیا گیا کہ ’اس ساری صورت حال کے دوران کیا آپ لندن میں اپنے بچوں کے ساتھ رابطے میں ہیں؟ کیا وہ آپ کی زندگی کے بارے میں فکر مند ہیں؟‘ تو عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آپ کے بیٹوں کا آپ کے بارے میں فکرمند ہونا قدرتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں نے ان سے بات کی ہے، وہ فکر مند ہیں کیوں کہ میرے اوپر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے۔ اس وقت وہ مجھے دیکھنے آئے تھے۔‘

عمران خان 2018 کے عام انتخابات میں برسراقتدار آئے جن کے بارے میں بڑے پیمانے پر قیاس آرائی کی جاتی تھی کہ فوج نے ان کے حق میں راہ ہموار کی۔

پاکستان فوج اور عمران خان دونوں ہی اس الزام سے انکار کرتے رہے تاہم عمران خان کی بطور وزیر اعظم معزولی اور بالخصوص حالیہ واقعات کے بعد پاکستان فوج اور ان کے درمیان اختلافات منظر عام پر آ چکے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں، زمین سے متعلق دھوکہ دہی کے مقدمے میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے کئی دن تک پرتشدد مظاہرے جاری رہے اور فوجی تنصیبات سمیت نجی اور سرکاری کاروں اور عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا۔

پاکستان فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ تشدد میں ملوث پائے جانے والوں کے خلاف متعلقہ پاکستانی قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اس وقت زیر حراست ہیں اور پی ٹی آئی کے مطابق پارٹی کے ہزاروں حامی بھی زیر حراست ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست