کیا سپر انٹیلیجنس انسانیت سے چھٹکارا پا کر دنیا پر قابض ہو گی؟

یہ سمجھنا پہلے ہی مشکل ہے کہ فی الحال دستیاب مصنوعی ذہانت ٹولز کے ’دماغ‘ کے اندر کیا چل رہا ہے لیکن ایک بار سپر انٹیلی جنس کا ظہور ہو جائے تو اس کے عمل بھی سمجھ سے باہر ہو سکتے ہیں۔

نامیاتی مادے سے بنے دماغوں کی حیاتیاتی اور ارتقائی حدود کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کسی نہ کسی طرح کے دماغی کمپیوٹر انٹرفیس کی ضرورت پڑسکتی ہے  (پیکسلز)

سوئڈش مصنف کی کتاب ’ان فینشڈ فیبل آف دا سپیروز‘ میں بتایا گیا ہے کہ چھوٹے پرندوں کا ایک جھنڈ اُلّو کے انڈے چوری کرنے اور ان سے بچے نکلوا کر انہیں غلام بنانے کا منصوبہ بناتا ہے۔

وہ سوچتے ہیں کہ اگر اُلّو کے یہ بچے ان کے لیے کام کر سکیں تو زندگی کتنی آسان ہو جائے گی اور وہ مزے کی زندگی گزار سکیں گے۔

اپنے جھنڈ کے کچھ ارکان کی جانب سے خبردار کرنے کے باوجود کہ انہیں پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اُلّووں کو پالنے سے پہلے انہیں کس طرح قابو کرنا ہے، چڑیاں انڈے چوری کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لاتی ہیں۔

یہ کہانی، جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے، نامکمل ہے۔ اس کے مصنف سویڈش فلاسفر نک بوسٹروم نے جان بوجھ کر اسے ادھورا چھوڑ دیا کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ مافوق الفطرت مصنوعی ذہانت کے حوالے سے انسانیت اس وقت انڈوں کے شکار کے مرحلے میں ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نے ’سپر انٹیلی جنس: پاتھز، ڈینجرز، سٹریٹیجیز‘ کے عنوان سے مصنوعی ذہانت پر اپنے بنیادی مضمون میں کہا ہے کہ اگر ہماری تیاری پوری نہ ہوئی تو مصنوعی ذہانت ہمیں تباہ کر سکتی ہے۔

سپر انٹیلی جنس، جسے وہ ایک مصنوعی ذہانت کے طور پر بیان کرتے ہیں، کی قابلیت تمام دلچسپی کے شعبوں میں انسانوں کی علمی کارکردگی سے بہت زیادہ ہے اور ایسا ہونا ہمارے تصور سے بھی زیادہ قریب ہے جیسا کہ مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور اس صنعت کے سرکردہ شخصیات نے خبردار کیا ہے کہ ایسا ہونا صرف چند سال ہی دور ہے۔

پیر کو مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی کے تخلیق کار نے پروفیسر بوسٹروم کی 2014 کی کتاب میں دیے گئے انتباہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں میں مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی بظاہر نمایاں پیش رفت کا مطلب یہ ہے کہ سپر انٹیلی جنس کی آمد ناگزیر ہے اور ہمیں اس کے لیے تیاری شروع کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

اس سے قبل ’اوپن اے آئی‘ کے سربراہ سیم آلٹ مین، جن کی کمپنی چیٹ جی پی ٹی کا مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ تاریخ میں سب سے تیزی سے ترقی پانے والی ایپ ہے، نے پروفیسر بوسٹروم کی کتاب کو ’اس موضوع پر دیکھی گئی سب سے اچھی چیز‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

کتاب پڑھنے کے صرف ایک سال بعد آلٹ مین نے جدید مصنوعی ذہانت کے خطرات کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان میں تخفیف کرنے کے لیے ایلون مسک اور الیا سوٹسکیور جیسے دیگر اسی طرح فکر مند ٹیکنالوجی لیڈرز کے ساتھ اوپن اے آئی کی مشترکہ بنیاد رکھی۔

ابتدائی طور پر ایک غیر منافع بخش منصوبے کے طور پر شروع کیا گیا اوپن اے آئی اس کے بعد سے قابل ذکر نجی مصنوعی ذہانت کی فرم میں تبدیل ہو گئی ہے اور ممکنہ طور پر یہ اب سپر انٹیلی جنس کے حصول کے قریب تر ہے۔

آلٹ مین کا خیال ہے کہ سپر انٹیلی جنس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ نہ صرف ہماری زیادہ تر مشقت ختم کر کے ہمیں فرصت کی زندگی فراہم کر سکتی ہے بلکہ بیماریوں کے علاج، مصائب کو ختم کرنے اور انسانیت کو ایک انٹر سٹیلر مخلوق میں تبدیل کرنے کی قابلیت بھی رکھتی ہے۔

انہوں نے اس ہفتے لکھا کہ اس پیشرفت کو روکنے کی کوئی بھی کوشش ’غیر شعوری طور پر خطرناک‘ ہو گی اور اس کے لیے ’عالمی نگرانی کے نظام‘ جیسی چیز کی ضرورت ہوگی جس پر عمل درآمد کرنا عملی طور پر ناممکن ہو گا۔

یہ سمجھنا پہلے ہی مشکل ہے کہ فی الحال دستیاب مصنوعی ذہانت ٹولز کے ’دماغ‘ کے اندر کیا چل رہا ہے لیکن ایک بار سپر انٹیلی جنس کا ظہور ہو جائے تو اس کے عمل بھی سمجھ سے باہر ہو سکتے ہیں۔

یہ جان سکتا ہے کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہوں گے یا ایسے فیصلے لیں گے جو ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔

نامیاتی مادے سے بنے دماغوں کی حیاتیاتی اور ارتقائی حدود کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کسی نہ کسی طرح کے دماغی کمپیوٹر انٹرفیس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

اس نئے تکنیکی دور میں مصنوعی ذہانت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے پروفیسر بوسٹروم نے خبردار کیا کہ انسانیت زمین پر غالب جاندار کے طور پر تبدیل ہو سکتی ہے۔

اس کے بعد سپر انٹیلی جنس ہمیں اپنے مقاصد کے لیے ضرورت سے زیادہ پرکھ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور مصنوعی ذہانت نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ان تمام افادیت اور ٹیکنالوجی کو کیسے ہائی جیک کیا جائے جن پر ہم انحصار کرتے ہیں یا یہاں تک کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں تو مصنوعی ذہانت کو ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے میں دیر نہیں لگے گی۔

ایک زیادہ رحم دل لیکن اسی طرح کا ایک اور تاریک منظر نامہ یہ ہے کہ ہمارے اور مصنوعی ذہانت کے درمیان ذہانت میں خلیج کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ (مشینیں) ہمیں اسی طرح دیکھیں گی جس طرح ہم جانوروں کو دیکھتے ہیں۔

ایلون مسک اور سائنس دان نیل ڈی گراس ٹائسن کے درمیان 2015 کی بات چیت کے دوران انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ مصنوعی ذہانت ہمارے ساتھ پالتو جانوروں کی طرح برتاؤ کرے گی۔

پروفیسر ٹائسن نے کہا: ’وہ ہمیں پالیں گے۔ وہ نفیس انسانوں کو نہیں ماریں گے اور پر تشدد لوگوں سے چھٹکارا پائیں گے۔‘

اسے روکنے کی کوشش میں ایلون مسک نے اپنی بے پناہ دولت کا ایک حصہ نیورالنک نامی دماغی چپ سٹارٹ اپ کو فنڈ دینے کے لیے وقف کر دیا ہے۔

اس ڈیوائس کو بندروں پر پہلے ہی آزمایا جا چکا ہے جس سے وہ اپنے دماغ سے ویڈیو گیمز کھیل سکتے ہیں اور اس کا حتمی مقصد انسانوں کو ہائبرڈ سپر انٹیلی جنس کی شکل میں تبدیل کرنا ہے۔

ناقدین کا خیال کہ اگر مسک کا یہ منصوبہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو بھی ٹیکنالوجی اسی طرح دو درجوں والا معاشرہ تشکیل دے گی جس میں ایک طبقہ چپ سے لیس اور دوسرا اس کے بغیر ہو گا۔

اوپن اے آئی کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے بعد سے ارب پتی ایلون مسک نے سپر انٹیلی جنس کے ظہور کے بارے میں متعدد انتباہات جاری کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مارچ میں انہوں نے ایک ہزار سے زیادہ محققین کے ساتھ مل کر طاقت ور مصنوعی ذہانت سسٹمز کی ترقی پر کم از کم چھ ماہ کے لیے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ایک کھلے خط میں لکھا کہ تباہی سے بچنے کے لیے اس وقت (چھ ماہ) کو مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حفاظتی اقدامات پر تحقیق کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔

اس میں دنیا بھر کی معروف مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنیوں کا اتفاق رائے ناممکن لگتا ہے جن میں سے زیادہ تر تمام منافع کی تلاش میں ہیں تاکہ اس طرح کے کسی بھی وقفے کو اپنے لیے مؤثر بنایا جا سکے۔ اور جب اوپن اے آئی الو کے انڈے کی تلاش میں آگے بڑھ رہا ہے آلٹ مین نے کم از کم پروفیسر بوسٹروم کے افسانے کی انتباہ پر دھیان دیا ہے۔

نیو یارکر کے ساتھ 2016 کے ایک انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ قیامت کے دن کی تیاری کر رہے ہیں خاص طور پر مصنوعی ذہانت سے چلنے والے الہام کے لیے۔

انہوں نے کہا: ’میں کوشش کرتا ہوں کہ میں اس کے بارے میں زیادہ نہ سوچوں۔‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ کیلیفورنیا کے ایک گاؤں میں ایک خفیہ جگہ پر انہوں نے بندوقیں، سونا، پوٹاشیم آئوڈائڈ سپلیمنٹ، اینٹی بائیوٹکس، بیٹریاں، پانی اور گیس ماسک چھپا رکھے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اس میں سے کوئی بھی چیز باقی انسانوں کے لیے زیادہ مفید ہو گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی