حمزہ بابا کا 83 سالہ فلمی سکرپٹ ’ضائع‘ ہونے کا خدشہ

سجاد علی شنواری کہتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان میں دیگر ریکارڈ کے ساتھ ساتھ ’بابائے غزل امیر حمزہ خان شینواری کے بہت سے ڈرامے اور فیچر بھی یقینی طور پر ضائع ہو چکے ہیں۔‘

پشتو زبان کی پہلی فلم ’لیلیٰ مجنوں‘ کی بنیاد رکھنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف حمزہ بابا کا 83 سالہ ’قیمتی‘ فلمی سکرپٹ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

امیر حمزہ خان شنواری کے پوتے سجاد علی شنواری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

سجاد علی شنواری کہتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان میں دیگر ریکارڈ کے ساتھ ساتھ ’بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری کے بہت سے ڈرامے اور فیچر بھی یقینی طور پر ضائع ہو چکے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے سجاد علی شنواری نے مزید کہا کہ حمزہ بابا 1938 میں اس وقت کے بمبئی چلے گئے تھے۔

’وہ (حمزہ بابا) بتایا کرتے تھے کہ انہیں ایک خاموش فلم میں اداکاری کرنے کا موقع ملا تھا مگر وہ خوش نہیں تھے کیونکہ انہیں فلم میں ہیرو کا کردار ادا کرنا پسند تھا لیکن انہیں بطور ویلن لیا گیا تھا۔‘

سجاد علی شنواری بتاتے ہیں کہ اسی دوران حمزہ بابا کی ملاقات رفیق غزنوی سے ہوئی جو ہندوستان میں موسیقی کے استاد سمجھے جاتے ہیں۔

’ان دونوں نے پشتو زبان میں فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کا نام لیلیٰ مجنوں رکھا گیا۔ اس فلم کا سکرپٹ 1941 میں لکھا گیا تھا جس کے ڈائیلاگ، گانے اور کہانی حمزہ بابا نے خود لکھے۔

’یہ پشتو کی پہلی فلم تھی جو بمبی میں بنی تھی اور اس کی نمائش پشاور میں ہوئی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سجاد علی شنواری کہتے ہیں کہ 83 سال قبل لکھے گئے اس سکرپٹ کو اگر وقت پر شائع نہ کیا گیا تو آنے والی پشتون نسل اس سے فائدہ نہیں اٹھا پائے گی۔

بیسویں صدی میں اس علاقے کے اہم شخصیات میں سے امیر حمزہ خان شنواری کا نام بھی سرفہرست ہے جنہوں نے ادب کے شعبہ میں بیش بہا خدمات سر انجام دے کر نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت عالمگیریت اور آفاقیت اختیار کر چکی ہے۔ آج بھی یہ مٹی شاعروں اور ادیبوں کی وجہ سے کافی زرخیز ہے۔

بابائے غزل کہے جانے والے امیر حمزہ شنواری 20ویں صدی کے عظیم شاعر، ادیب، فلسفی، ماہر نفسیات، افسانہ نگار، مضمون نگار، مترجم، دانشور، سفرنامہ نگار اور محقق تھے۔

وہ 1907 میں لنڈی کوتل ضلع خیبر ملک باز میر خان کے گھر پیدا ہوئے تھے۔

1915 میں انہیں لنڈی کوتل کے ایک پرائمری سکول اور بعد میں اسلامیہ کالجیٹ سکول پشاور میں داخل کروا دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن