برٹش کارڈیو ویسکولر سوسائٹی کانفرنس میں پانچ جون 2023 کو پیش کی گئی نئی تحقیق کے مطابق کسی بھی ہفتے میں دفتری کام کے پہلے دن باقی دنوں کے مقابلے میں دل کے سنگین دورے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
بیل فاسٹ ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر ٹرسٹ اور رائل کالج آف سرجنز کے ڈاکٹروں نے آئرلینڈ میں 10,528 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
یہ مریض 2013 اور 2018 کے درمیان انتہائی سنگین دل کے دورے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
دل کے دورے کی اس قسم کو ’سیگمنٹ ایلیویشن مائیوکارڈیل انفارکشن(STEMI)‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
دل کی یہ میڈیکل کنڈیشن اس وقت ہوتی ہے جب دل کی ایک بڑی شریان مکمل طور پر بلاک ہو جاتی ہے۔
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق محققین نے کام کے ہفتے کے آغاز میں STEMI جیسے دل کے دوروں کی شرح میں اضافہ دیکھا جو پیر کو سب سے زیادہ پائی گئی۔
اتوار کو بھی توقع سے نسبتاً زیادہ STEMI مریضوں میں پایا گیا۔
سائنس دان ابھی تک اس بات کی پوری طرح وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کی گئی سٹڈیز سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پیر کے دن دل کے دورے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
برطانیہ میں ہر سال STEMI کی وجہ سے 30,000 سے زیادہ مریض ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔
دورے کی صورت میں دل کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ہنگامی تشخیص اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایسا عام طور پر ہنگامی انجیو پلاسٹی کے ساتھ کیا جاتا ہے جو بند شریان کو دوبارہ کھولنے کا ایک طریقہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیل فاسٹ ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر ٹرسٹ میں تحقیق کی قیادت کرنے والے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جیک لافن کے مطابق ’ہم نے کام کے ہفتے کے آغاز اور STEMI واقعات کے درمیان ایک مضبوط شماریاتی تعلق پایا ہے۔‘
’اس کی وجہ ممکنہ طور پر کثیر الجہتی ہے، تاہم پچھلے مطالعات سے جو کچھ ہم جانتے ہیں اس کی بنیاد پر، سرکیڈین عنصر کا اندازہ لگانا مناسب ہے۔‘
(سرکیڈین عنصر سے مراد گھنٹے کے دوران جسم کے سونے اور جاگنے کا عمل ہے۔)
پروفیسر نیلیش سامانی کے مطابق ’برطانیہ میں ہر پانچ منٹ بعد کسی کو جان لیوا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ہارٹ اٹیک پر تحقیق جاری رہنا ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اب اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہفتے کے کچھ دنوں میں ایسا کیا ہے جو دل کے دورے کے امکانات کو زیادہ کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے ڈاکٹروں کو اس مہلک حالت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے تاکہ مستقبل میں مزید جانیں بچائی جا سکیں۔‘