لیہ سے لمز تک کا سفر

وردہ صغیر صوبہ پنجاب کے پسماندہ ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والی پہلی طالبہ ہیں، جو پاکستان کی مہنگی ترین نجی درس گاہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں سکالرشپ کی بنیاد پر داخلہ لینے میں کامیاب ہوئیں۔

وردہ کے والد صغیر احمد ایک سکول ٹیچر ہیں اور وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں (تصویر: فیوچر پاکستان  ٹیم فیس بک پیج)

ارادے پختہ ہوں تو ناممکن کو ممکن بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسی ہی مثال پاکستان کے جنوبی شہر لیہ سے تعلق رکھنے والی وردہ صغیر نے بھی قائم کی، جنہوں نے میٹرک، انٹر اور داخلہ ٹیسٹ میں نمایاں پوزیشن لے کر پاکستان کی نجی درس گاہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں سکالر شپ لینے کا اعزاز حاصل کیا۔

وردہ کے والد صغیر احمد ایک سکول ٹیچر ہیں اور وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔

وردہ کے مطابق وہ لیہ کی پہلی طالبہ ہیں جو لمز میں سکالرشپ کی بنیاد پر داخلہ لینے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے پانچ سالہ قانون کی ڈگری لینے کا انتخاب کیا اور پہلے ہی سال تعلیم کے ساتھ لیکچررز کی اسسٹنٹ کے طور پر بھی فرائض انجام دیے۔

انہوں نے اپنا خواب پورا ہوتے ہی اپنے علاقے کے غریب بچوں کو مقامی سکولوں اور کالجوں میں سکالر شپ پر مفت تعلیم دلوانے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ بے بس اور مجبور لڑکیوں کو ان کا حق دلوانے کا بیڑا بھی اٹھایا اور گرلز ایسوسی ایشن بنا کر کام کا آغاز کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا کے استعمال سے وہ نہ صرف اپنے ضلع بلکہ ملک بھر میں خواتین کے حقوق اور بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کا عزم کر چکی ہیں۔ انہوں نے سکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے ایک ٹیم بھی تیار کرلی ہے۔

وردہ صغیر نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کا شعور ملتے ہی فیوچر پاکستان ٹیم، لیہ گرلز ایسوسی ایشن اور خودکار کے نام سے پیجز بنائے اور 60 طلبہ پر مشتمل ٹیم بنائی۔

وردہ صغیر کا ماننا ہےکہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’لمز میں تعلیم حاصل کرنا ان کا خواب تھا لیکن والد فیس ادا نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے محنت سے سکالر شپ کے ذریعے اپنا خواب پورا کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ جب وہ لمز یونیورسٹی میں داخلے کے بعد کلاس میں گئیں تو انہوں نے اُسی وقت فیصلہ کیا کہ اپنے علاقے کے غریب بچوں کو بھی تعلیم کا حق دلوائیں گی۔

وردہ کہتی ہیں کہ وہ لیہ کے مختلف پرائیویٹ سکولوں میں جاکر انتظامیہ سے بات کرتی ہیں اور کھیلوں یا امتحان میں پوزیشن لینے والوں کو سکالر شپ دلوانے کا کام کر رہی ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پیجز اور ویب سائٹ کے ذریعے لڑکیوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بے روزگار خواتین کو امتحانی پرچوں کی چیکنگ، کتابوں کی جلدیں بنانے اور سلائی کڑھائی جیسے کام دلوا کر انہیں گھر بیٹھے روزگار دلوانے کا کام بھی کر رہی ہیں اور کسی سے مالی امداد لیے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت اب تک 300 خواتین کو روزگار اور 25 خواتین کے گھریلو مسائل حل کرا چکی ہیں جبکہ 20 سے زائد غریب بچوں کو سکالر شپ پر مفت تعلیم دلوانے کا بندوبست بھی کیا ہے۔

وردہ نے 17، 18 سال کی عمر میں معاشرتی شعور اور سیاسی و سماجی تربیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے دانشوروں، اساتذہ اور سینیئر سیاسی شخصیات کے ذاتی تجربوں کی روشنی میں عام لوگوں کے لیے آگاہی مہم بھی چلا رکھی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہوسٹل میں رہائش پذیر ہونے اور کُل وقتی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ یہ سب کام کیسے انجام دیتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہاں بچپن سے آس پاس بے بسی، غربت، لاعلمی اور سسکتے لوگ دیکھے ہیں، بس اب سال اور مہینوں کا کام دنوں یا منٹوں میں کرنے کی جستجو ہے۔‘

وردہ کی ہمت و حوصلے کا آنکھوں دیکھا حال

پنجاب کے پسماندہ ضلع لیہ کے لوگوں نے اس باہمت لڑکی کا حوصلہ اُس دن اپنی آنکھوں سے دیکھا جب 14 اگست اور عید کے موقع پر پولیس نے ان کے بھائی کو حراست میں لے کر مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

واقعہ کچھ یوں تھا کہ پولیس نے ون وہیلنگ اور ہلڑبازی کرنے والے نوجوانوں کو روکنے کے لیے لیہ میں ملتان روڑ پر ناکہ لگایا اور اسود صغیر نامی موٹر سائیکل سوار نوجوان کو پکڑ کر پولیس وین میں بٹھایا، جہاں اسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں تھانے لے جاکر چھوڑ دیا۔ یہ نوجوان وردہ صغیر کابھائی تھا۔

اہل خانہ کے مطابق اسود کے چہرے پر تشددکے نشان اور پھٹے ہوئے کپڑے دیکھ کر سب پریشان ہوگئے، اُس سے پوچھا کہ وہ تو گھر سے دہی لینے گیا تو مار پیٹ کس نے کی؟ جس پر اُس نے بتایا کہ اسے پولیس نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ سن کر وردہ اپنے والد کے ساتھ تھانے پہنچی، لیکن لیہ کے ماڈل پولیس تھانہ میں روایتی طور پر ان کی کسی نے نہ سنی۔ جس کے بعد اس لڑکی نے سوشل میڈیا پر اپنا ویڈیو پیغام اَپ لوڈ کردیا اور ساری صورتحال تھانے کے اندر کھڑے ہوکر بیان کردی، جس کے بعد ڈی پی او لیہ نے معاملے کا نوٹس لیا اور متاثرہ خاندان کو اپنے دفتر بلاکر معذرت کی۔ اس واقعے کو ظلم قرار دے کر وردہ اور ان کی ٹیم نے بھر پور آواز اٹھائی تو پولیس کو بھی اپنے رویے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔

وردہ صغیر کے خیال میں محرومیوں کا شکار علاقوں میں بے بس شہریوں کو خوراک، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تو کیا فراہم ہوں گی، انہیں جان ومال کا تحفظ بھی حاصل نہیں، اس لیے بے حس معاشرے کو جگانے کے لیے ان کے جوش وجذبے میں مزید اضافہ ہوا ہے اور وہ لاہور، اسلام آباد کے علاوہ تمام شہروں میں طلبہ کے ذریعے شعور بیدار کرنے کا عزم کر چکی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل