جب ثبوت نہیں تو فوج گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے مقدمے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کسی کے خلاف شواہد نہ ہونے پر کارروائی کرنا مضحکہ خیز ہے۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے آغاز پر منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’اس وقت جو کارروائی ہو رہی ہے وہ سویلینز کے فوج کے اندر تعلق کے تحت ہے۔ کارروائی آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ٹو ڈی ون) کے تحت ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں کسی سویلین کا ٹرائل نہیں ہو رہا ہے اور ملزمان کی حوالگی سے متعلق آرمی ایکٹ کا قانون ٹو ڈی ون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ڈی کا اطلاق ان سویلینز پر ہوتا ہے جو افواج پاکستان کی کارروائی پر اثر انداز ہوں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا جب آرمی ایکٹ میں درج جرم ریکارڈ پر نہیں تو انسداد دہشت گردی نے سویلینز کی حوالگی کی اجازت کیسے دی؟

جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے۔

وکیل نے جواب دیا آفیشل آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے علاقے پر حملہ یا استعمال جس سے دشمن کو فائدہ ہو وہ جرم ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا ممنوعہ علاقہ تو وہ ہوگا جہاں جنگی پلانز یا جنگی تنصیبات ہوں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا سویلین کا فوج کے اندرونی نظام سے تعلق جوڑا جا رہا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا آرمی افسران کا سب سے اہم مورال ہوتا ہے جس کو ڈاون کرنا بھی جرم ہے۔ افسران اپنے ہائی مورال کی وجہ سے ہی ملک کی خاطر قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔

منگل کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے بھی مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ خیرمقدم کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس مقدمے میں درخواست گزار بنی ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے فوج کے ترجمان کی پریس بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ وزارت دفاع کے نمائندے عدالت میں موجود ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو اٹارنی جنرل پر اعتماد ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران کے وکیل عزیر بھنڈاری نے سماعت کے آغاز میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف دلائل دیں گے جبکہ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

دلائل کے باقاعدہ آغاز کے بعد انہوں نے کہا پارلیمان بھی آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی، جس کے لیے 21 ویں آئینی ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کی حوالگی سے متعلق ٹو ڈی ون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہمارے پاس آفیشل سیکریٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں اور ہوا میں باتیں کی جا رہی ہیں۔ ٹو ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی اجازت دینے کے صوابدیدی اختیار کا استعمال شفافیت سے ہونا چاہیے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا بریگیڈیئر ریٹائرڈ فرخ بخت علی (ایف بی علی) کیس کے مطابق سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

عدالتی نظائر کے مطابق اگر سویلین کے افواج میں اندرونی تعلقات ہوں تب ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، کون طے کرتا ہے کہ سویلین کے اندرونی تعلقات ہیں لہذا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا؟

جسٹس منیب اختر نے کہا ایف بی علی کیس کے مطابق سویلینز کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل جنگی حالات میں ہو سکتا ہے اور اگر جنگی حالات نہ ہوں تو سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

سماعت کے دوران احمد فراز کا حوالہ

وکیل عزیر بھنڈاری نے سماعت میں وقفے کے بعد دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کچھ جرائم سال 2015 اور پھر 2017 میں شامل کیے گئے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا آرمی ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت بیان کردہ جرائم قابل ضمانت ہیں۔

وکیل نے کہا، ’احمد فراز کے فوج کے خلاف اشعار لکھنے پر کیس چلا تھا، ان کے قریبی ساتھی سیف الدین سیف نے ان کی رہائی کا کیس لڑا۔ احمد فراز سے متعلق کیس کے فیصلے میں بھی کہا گیا کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا، ’جب کوئی شخص آرمی ایکٹ کے دائرے میں آتا ہی نہیں تو اس کے خلاف کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟‘

’سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟‘

چیف جسٹس نے کہا، ’سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ کسی کے خلاف شواہد نہ ہونے پر کارروائی کرنا مضحکہ خیز ہے۔‘

وکیل نے کہا، ’جو افراد غائب ہیں ان کے اہل خانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا، ’اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں امید ہے وہ والدین کے لیے تسلی بخش ہوں گی۔‘

وکیل نے کہا، ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہو سکتی ہے، تاہم ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں ہے۔‘
آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے ذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں سقم ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ایف آئی آر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔

فوجی تحویل میں افراد سے متعلق تفصیلات جمع

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فوجی تحویل میں 102 افراد کے ناموں سمیت دیگر تفصیلات عدالت میں جمع کروا دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا ان 102 افراد کو اہل خانہ کو فون کال کرنے کی اجازت دی جائے گی، رابطے کے بعد اہل خانہ متعلقہ حکام سے بات کر کے ہفتے میں ایک بار ملزمان سے ملاقات کر سکیں گے اور انہیں پڑھنے کے لیے کتابیں مہیا کی جائیں گی۔ جیل میں قیدیوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جائے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ان افراد کے نام پبلک کرنے پر استفسار کیا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا چونکہ ملزمان زیر تفتیش ہیں لہٰذا درخواست ہے کہ 102 افراد کے نام اور تفصیلات کی لسٹ پبلک نہ کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے، عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے۔ ملزمان کی آج ہی اہل خانہ سے بات کروائیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دیں گے۔

موجودہ کیسز میں سزائے موت نہیں ہو سکتی

وکیل لطیف کھوسہ نے آئی سی جے کی رپورٹ میں ملٹری ٹرائل میں سزائے موت کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا، ’سزائے موت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہو، موجودہ کیسز میں کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں اس لیے سزائے موت کی سزا نہیں ہو سکتی۔‘

چیف جسٹس نے صحافی عمران ریاض خان کے حکومت کی تحویل میں ہونے سے متعلق سوال کیا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا وہ حکومت کی تحویل میں نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا انہیں تمام تر وسائل لگا کر ٹریس کرنے کی کوشش کریں۔ ’فون پر خط موصول ہوا جس میں مجھ پر الزام تھا کہ میں عمران ریاض کے لیے کچھ نہیں کر رہا، اس طرح کی حرکات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے۔‘

بعد ازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

گذشتہ سماعتوں میں کیا ہوا؟

جسٹس منصور علی شاہ پر گذشتہ روز وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد انہوں نے خود کو سات رکنی بینچ سے علیحدہ کر لیا تھا اور آج ان درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ کر رہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔

اس سے قبل 22 جون کو فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد نو رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا اور چیف جسٹس نے سات رکنی نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔

جمعے (23 جون) کو ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہؤئے کہا تھا کہ ان کی درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے کیوں کہ انہوں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ’من پسند افراد کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے۔‘

وکیل نے مزید کہا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہیں جن پر وہ دلائل دیں گے۔

اس سے قبل 22 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے۔

’دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔‘

چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 26 جون تک ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوشش کریں گے کہ اس کیس کا نتیجہ 27 جون تک نکل آئے۔

 

درخواست کیا تھی؟

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، قانون دان اعتراز احسن اور دیگر نے اپنی درخواستوں میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتوں کی موجودگی میں ملٹری کورٹس کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی ہے، جسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔

مزید کہا گیا کہ ’آرمی ایکٹ کے کچھ سیکشن آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں،‘ جنہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔

درخواست میں اس حوالے سے بھی ڈیٹا طلب کرنے کی استدعا کی گئی ہے کہ ’ٹرائل کے دوران ملزمان کو کہاں رکھا گیا ہے۔‘

ساتھ ہی فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے بھی ملزمان کو سول حکام کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی گئی۔

اسی طرح ملٹری کورٹس کی کارروائی روکنے اور حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کے حکم کا بھی کہا گیا ہے۔

مزید کہا گیا: ’درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کی حمایت کرنا نہیں ہے۔ درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست کے مطابق: ’فوجی عدالتوں کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ حاضر سروس ملازم ہونے کی صورت میں ہی عام شہری کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ممکن ہے۔‘

درخواست میں وزارت دفاع، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔

گذشتہ ماہ نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں اور نجی و قومی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات سامنے آئے تھے۔

حکومت نے ان افراد کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سرکاری بیانات کے مطابق بعض ملزمان کے مقدمات پہلے ہی فوجی عدالتوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔

قانون دان اعتزاز احسن نے بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر آئینی اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ غیرقانونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں پاکستان کے آئین کے تحت نہیں لگ سکتیں، اس بارے میں حتمی فیصلہ 1999 میں ہو گیا تھا، عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا سویلین پر مقدمہ چلانے کا کوئی اختیار نہیں۔

فوجی عدالتوں کے فیصلے

ماضی میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے کئی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دیا تھا۔

جون 2020 میں پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں، جبکہ مزید ایک سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔

بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

تنقید

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ ان عام شہریوں کے مقدمات سویلین عدالتوں میں بھیجے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی کارروائی فوجی عدالتوں میں کرنا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جس کی توثیق پاکستان نے بھی کی ہے۔ یہ قانون ملزمان کو شفاف اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق دیتا ہے۔

ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیس نے 33 مشتبہ افراد کو فوج کے حوالے کیا ہے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مخصوص صورتِ حال کی بھی وضاحت کی گئی ہے جن میں بغاوت، جاسوسی اور حساس مقامات کی تصاویر بنانا شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان