فوجی عدالت مخالف وکلا عمران خان، چیف جسٹس سے ملے: وزیر داخلہ

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہنا کہ ان ملاقاتوں میں مبینہ طور پر جسٹس فائز عیسی کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا کیونکہ ان کا فوجی عدالتوں سے متعلق ایک رائے لوگوں کو معلوم ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والے دو سینیئر وکلا نے درخواست دینے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقاتیں کیں۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہنا کہ ان ملاقاتوں میں مبینہ طور پر جسٹس فائز عیسی کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا کیونکہ ان کا فوجی عدالتوں سے متعلق ایک رائے لوگوں کو معلوم ہے۔

ان الزامات کے بارے میں دونوں سینیئر وکلا کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ موجود اسی لیے ہے کہ فوجی تنصیبات کے علاقے میں اگر کوئی داخل ہوگا تو اسی قانون کے تحت اس کے خلاف کارروایی ہوگی۔ ان کا الزام تھا کہ نو مئی کو تحریک انصاف کے مظاہرین جان بوجھ کر فوجی علاقے میں داخل ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے ہمسایے میں جو انصاف کا سب سے بڑا ایوان ہے، عدالت عظمی ہے، اس میں کل جو واقعات ہوئے ہیں وہاں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں پر جو صورت حال ہے، اس کے پیش نظر کس قسم کے الفاظ اور کس قسم کے تبصرے ہو رہے ہیں، کل وہاں پر نو رکنی بینچ جب سماعت کےلیے بیٹھا تو چیف جسٹس کے بعد جو سینیئر ترین جج ہیں، جو کہ نامزد چیف جسٹس ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔ ’اگر یہ بات میں کہوں تو شاید فوری طور پر میں توہین عدالت کا مرتکب ہو جاؤں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بات سپریم کورٹ کا سینیئر ترین جج کہہ رہا ہے کہ اس عدالت (بینچ) کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ پارلیمان نے جو قانون منظور کیا ہےاس کے بعد اس عدالت کا فرض ہے کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرے۔ ’عدالت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کے اوپر بیٹھے وہ قانون کے خلاف فیصلے کرے۔‘

اس سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرنے پر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں کچھ مسترد شدہ سیاست دانوں کی جانب سے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے دائر کی گئی ہیں۔

بجٹ پر بحث کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ نے ماضی میں فوجی عدالتوں میں ایسے ٹرائلز کی توثیق کرنے کے باوجود یہ درخواستیں قبول کرلیں۔

انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر درخواست گزاروں پر زور دیا کہ وہ سیاسی مفاد کے لیے ملک کے وقار پر سمجھوتہ نہ کریں۔ انہوں نے ریاستی اداروں پر زور دیا کہ وہ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں، عدلیہ نے پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں تجاوز کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست