بنیاد پرست تنظیموں سے نمٹنے کے لیے صرف پابندی کافی نہیں

پاکستان اور انڈیا میں متشدد تنظیموں پر پابندی لگا دینا عام ہے، تاہم یہ اقدام انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے حوالے سے ناکافی ہیں۔

وزارت داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان کو 15 اپریل، 2021 کو کالعدم قرار دیا تھا (اے ایف پی)

گذشتہ سال کے آخر میں انڈیا نے ایک اسلامسٹ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر پابندی لگا دی، جبکہ اسی اثنا میں پاکستان نے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی تنظیم تحریک لبیک (ٹی ایل پی) پر سے پابندی اٹھا لی۔

اس پس منظر میں متشدد اور غیر متشدد انتہا پسندی کی حامل بنیاد پرست تنظیموں کو سمجھنے کے لیے جنوبی ایشیا میں موجودہ انسداد انتہا پسندی کے طریقوں کے خاتمے کے لیے اہم بین الضابطہ فریم ورک میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے الزام کو ریاستی اورغیر ریاستی عناصر غلط طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ریاستوں کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت تشدد کرنے والی غیر ریاستی تنظیموں پر پابندی لگا دینا عام ہے، تاہم یہ پالیسیاں انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے حوالے سے ناکافی ہیں۔

ریاست مخالف تشدد کی بہت سی شکلیں ہیں جن میں دہشت گردی ایک ہے۔ اسی طرح ریاست مخالف تشدد میں ملوث تمام غیر ریاستی عناصر ’دہشت گرد‘ نہیں ہیں بلکہ دہشت گردی کو حربے کے طور پر استعمال کرنے والے باغی یا بنیاد پرست گروہ بھی ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایسے بنیاد پرست گروہ بھی ہیں جو منظم طریقے سے تشدد کے استعمال کو نہیں مانتے، لیکن ان کے کچھ ارکان انفرادی دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں جو معاملے کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں دہشت گردی کے علاوہ دوسرے خطرے کی حامل تنظیموں کا نقطہ نظر اہم ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کی بنیاد پر پالیسی سازوں کی تنگ نظری سے بھی لاحق خطرات نظرانداز ہو جاتے ہیں۔

مزید برآں، مخصوص سماجی طبقوں کو ریاست مخالف تشدد میں ملوث ہونے پر مجبور کرنے والی حقیقی شکایات کا اچھی طرح سے مطالعہ کیا جانا چاہیے اور طویل مدتی نقطہ نظر سے ان کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔

ایک معاملہ پاکستان کا تحریکِ لبیک (ٹی ایل پی) کو کالعدم قرار دینے اور پھر اس پرعائد پابندی کو واپس لینے کا فیصلہ ہے۔ ٹی ایل پی پاکستانی سیاسی تاریخ میں وارد ہونے والے ایک نئی بنیاد پرست مذہبی-سیاسی تنظیم ہے جس نے توہین مذہب کے معاملے پر سیاست کی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر پاکستان میں ایک خاص مسلک کی سیاست کو پروان چڑھایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تنظیم نے فرانسیسی طنزیہ میگزین چارلی ایبڈو کی طرف سے پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکوں کی بنیاد پر مذہبی سیاست کی بنیاد پر اپنی جگہ بنائی۔

تحریک لبیک نے 2016 اور 2017 میں پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی جلوس نکالے اور 2018 کے انتخابات میں سیاسی پذیرائی حاصل کی۔ 2021 میں جب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے چارلی ایبڈو کے متنازع کارٹونوں کو دوبارہ شائع کرنے کے فیصلے کی حمایت کی تو تحریک لبیک نے لانگ مارچ کے ذریعے پاکستانی دارالحکومت کا محاصرہ کرنے کی دھمکی دی اور اسلام آباد سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔

تنظیم کی جارحانہ سیاست اور بنیاد پرست بیانیے سے تنگ آ کر ریاست نے دہشت گردی کے قوانین کے تحت تحریک لبیک پر پابندی لگا دی۔ ٹی ایل پی کے رہنما سعد حسین رضوی کو بھی تنظیم کو کمزور کرنے کی غرض سے حراست میں لے لیا گیا۔

تاہم تنظیم کی سٹریٹ پاور اور سماجی اثر و رسوخ نے ریاست کو پیچھے دھکیلنے پر مجبور کر دیا اور بالآخر ریاست نے تحریک لبیک پر عائد پابندی واپس لے لی اور سعد رضوی اور اس کے دیگر ساتھیوں کو ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد رہا کر دیا۔

عام طور متشدد اور غیر متشدد انتہا پسندی کے سنگم پر واقع تحریک لبیک نے اپنے بیان کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے نہ تو منظم تشدد کی حوصلہ افزائی کی اور نہ ہی مبینہ توہین کرنے والوں کے خلاف اس کے اراکین کی طرف سے کیے جانے والے انفرادی دہشت گردی کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی۔ لہٰذا صرف ٹی ایل پی کو دہشت گردی کی تنگ نظر سے دیکھنا مشکل ہے۔

اگرچہ انفرادی دہشت گردی کی کارروائیوں سے سرگرمی سے نمٹنے کی ضرورت ہے لیکن زیادہ چیلنجنگ پہلو وہ نفرت انگیز تقاریر ہیں جو اس طرح کے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف متبادل بیانیے پر مشتمل انسداد انتہا پسندی کا غیر متحرک پہلو اہم ہو جاتا ہے۔

 اسی طرح انڈیا نے ستمبر2022 میں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط، مسلم-ہندو دشمنی اور سماجی بدامنی پیدا کرنے کے حوالے سے بنیادپرست پاپولر فرنٹ پر پانچ سال کی پابندی لگا دی۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس تنظیم کے کچھ ارکان انفرادی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملوث تھے۔

پاپولر فرنٹ اور تحریک لبیک دونوں مذہبی جماعتوں اورعسکریت پسندی کا امتزاج ہیں، لہٰذا صرف پابندی ہی ان جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ انڈین ریاست کیرالہ اور کرناٹک میں جب اکثریتی ہندوتوا قوتیں ملک کی مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلم کمیونٹی کو سماجی اور سیاسی دھارے سے نکال رہی ہے، اس پس منظر میں پاپولر فرنٹ جیسی تنظیموں کو پنپنے کا موقع ملتا رہے گا۔

ایسی تنظیمیں پاکستانی اور انڈین سیاست کے لیے مشترکہ خطرے کا باعث ہیں، لہٰذا ایسی بنیاد پرست مذہبی تنظیموں کو صرف دہشت گردی کی تنگ نظری سے دیکھنا اور ان پر پابندی لگانے کے بجائے ایک زیادہ ایک وسیع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے جو ان کے نظریاتی بیانیے کو ختم کرے۔

اس طرح کی بنیاد پرست سرگرمیوں پر مبنی حقیقی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید جامع پالیسی سازی آگے بڑھنے کا زیادہ جامع راستہ ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کالم نگار سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ریسرچ فیلو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر