صدر ٹرمپ کی ایک بار پھر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں فرانس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں کشمیر پر بات کریں گے۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا: ’کشمیر ایک بہت ہی پیچیدہ جگہ ہے۔ وہاں ہندو ہیں اور مسلمان بھی، اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ یکجہتی سے رہتے ہیں۔‘ (اے ایف پی)

پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بارے میں عالمی خدشات کے مدنظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو دونوں ممالک کے وزرائے اعظم  سے فون پر بات کرنے کے بعد منگل کی شب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کو کشمیر میں کشیدہ صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے میں خوشی ملے گی۔

بھارت نے پانچ اگست کو اپنے زیر انتظام کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی جس کے بعد وادی میں کرفیو نما صورت حال اب بھی ہے۔ مواصلاتی نطام بند اور بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد تعینات ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور بھارتی سفیر کو واپس جانے کا کہا تھا۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران کشمیر میں کرفیو میں نرمی کے دوران کشمیریوں کے بھارتی فیصلے کے خلاف کئی مظاہرے ہوچکے ہیں۔

اپنے تازہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں اس معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کریں گے۔ مودی اور ٹرمپ کی ملاقات فرانس میں گروپ آف سیون صعنتی ممالک (G7) کے اجلاس میں متوقع ہے۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا: ’کشمیر ایک بہت ہی پیچیدہ جگہ ہے۔ وہاں ہندو ہیں اور مسلمان بھی، اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ یکجہتی سے رہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں ثالثی کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘

خطے میں کافی کشیدگی ہے اور صدر ٹرمپ کا بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب پاکستان نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے پار سے بھارتی گولہ باری میں تین پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ  پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے حکام کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ منگل کو کشمیر کے ضلع پونچھ میں پاکستانی فوج کی ایل او سی پر فارورڈ پوسٹوں اور دہاتوں پر فائرنگ میں ایک بھارتی فوجی ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور کشمیر میں صورت حال اس بات سے مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ چین بھی اس ہمالیائی علاقے کے کچھ حصے پر دعویٰ کرتا ہے۔

صدر ٹرمپ اس سے پہلے بھی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں جب گذشتہ ماہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ماہ کے شروع سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں حکام کی جانب سے مواصلاتی اور نقل وحمل پر پابندیاں عائد ہیں اور اب تک تقریباً چار ہزار افراد حراست میں لیے گئے ہیں۔

حال ہی میں علاقے کے دورے سے واپس آئے ایک سینئیر امریکی اہلکار نے منگل کو بھارتی حکام پر زور دیا کہ وہ حراست میں لیے گئے افراد کو جلد رہا کرے اور کشمیریوں کی  بنیادی آزادیاں بحال کرے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے اہلکار نے کہا: ’ہمیں علاقے میں گرفتاریوں اور جاری پابندیوں کی رپورٹس پر تشویش ہے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ انفرادی حقوق کا احترام کیا جائے، کارروائیاں قانون کے مطابق کی جائیں اور دوطرفہ  مذاکرات ہو۔‘

1947 سے کشمیر کا کچھ حصہ بھارت اور کچھ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ اس مسلم اکثریت ریاست پر دونوں ممالک کے درمیان دو بڑی جنگیں اور کئی جھڑپیں ہوچکی ہیں۔

اس سال فروری میں دونوں ملک ممکنہ جنگ کے قریب آ گئے تھے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلومہ کے مقام پر ایک دہشت گرد حملے میں 50 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان میں بسنے والے دہشت گردوں پر لگایا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف ہوئی سٹرایکس بھی کی۔

بھارت کشمیر پر غیر ملکی ثالثی کی کسی پیشکش کو مسترد کرتا آیا ہے اور گذشتہ ماہ صدر ٹرمپ کے اس بیان کو سختی سے رد کیا تھا کہ مودی نے انہیں کشمیر پر ثالثی کی دعوت دی تھی۔  

اس نے پچھلے ہفتے بھی اس کی مخالفت ظاہر کی تھی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 50 سالوں کے بعد کشمیر پر اجلاس رکھا تھا۔

ڈاونگ سٹریٹ کی ترجمان کے مطابق منگل کو ایک ٹیلی فون کال میں برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے مودی کو کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان خود ہی حل ہونا چاہیے۔

فرانس میں اہلکاروں نے بتایا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمینویل میکرون بھی G7 کے اجلاس سے قبل مودی سے کشمیر پر بات کریں گے جس سے مسئلہ کشمیر پر  بڑھتی عالمی تشویش ظاہر ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں کشمیر پر ثالثی کی پہلی پیشکش کے بعد بھارت میں شدید ردعمل دیکھا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا وزیر اعظم نریندر مودی سے وضاحتیں طلب کرتا رہا لیکن انہوں نے خود ایسی کوئی صفائی پیش نہیں کی لیکن ان کے وزرا امریکی صدر کو مصالحت کی درخواست سے انکار کرتے رہے۔

بلکہ بھارت کے امریکہ میں سفیر نے بعد میں اس پیشکش کے وجود سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ میز پر نہیں ہے۔ لیکن اب صدر ٹرمپ کی جانب سے دوبارہ ثالثی کی پیشکش پر بھارت کیا ردعمل دکھاتا ہے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا