خیبر پختونخوا: کیا ٹی ٹی پی میں اختلافات حملوں میں اضافے کا باعث ہیں؟

گذشتہ تقریباً چھ مہینے سے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں شدت پسندی کے پے در پے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت عام شہریوں کی بھی اموات ہوئیں۔

سکیورٹی اہلکار پشاور کے علاقے حیات آباد میں 18 جولائی 2023 کو ایک  خودکش دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کا جائزہ لیتے ہوئے (اے ایف پی/ عبدالمجید)

گذشتہ تقریباً چھ مہینے سے خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں شدت پسندی کے پے در پے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جن کی ذمہ داری مختلف شدت پسند گروپوں نے قبول کی۔

جمعرات (20 جولائی) کو پشاور سے متصل ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں پولیس سٹیشن کے مرکزی گیٹ پر دو خود کش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جان سے گئے اور 11 افراد زخمی ہوئے۔

اسی طرح پولیس کے مطابق رواں ہفتے پشاور کے ریگی ماڈل ٹاؤن میں ناکے پر کھڑے اہلکاروں پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار جان سے گئے۔

چند روز قبل پشاور کے پوش علاقے حیات آباد کے فیز چھ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے ساتھ ایک  خودکش حملہ آور  نے گاڑی ٹکرا کر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑایا لیا تھا، جس میں پولیس کے مطابق سکیورٹی فورسز کے نو اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

اسی طرح گذشتہ شب پشاور کی ریاض شہید پولیس چوکی پر شدت پسندوں نے حملہ کیا، جسے پولیس کی جانب سے پسپا کردیا گیا اور اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

ان واقعات کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

تاہم ٹی ٹی پی کا سابق دھڑا جماعت الاحرار، جو اب مرکزی تنظیم میں ضم ہوگیا ہے، کے موجودہ امیر اور ٹی ٹی پی مرکزی شوریٰ کے رکن مکرم خراسانی نے گذشتہ روز خیبر اور حیات آباد میں ہونے والے خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس حوالے سے ٹی ٹی پی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا کیونکہ جماعت الاحرار سے منسلک افراد نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس سے پہلے بلوچستان میں فوجی چھاؤنی پر حملے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار سے منسلک ٹی ٹی پی (ڈیرہ اسماعیل خان) کے نام نہاد گورنر اسد آفریدی نے قبول کی تھی جبکہ اسد آفریدی سے پہلے حملے کی ذمہ داری ’تحریک جہاد پاکستان‘ نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔

بعد میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان نے اسد آفریدی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور اس کے بعد اسد آفریدی نے مرکزی شوریٰ کے خلاف ایک تنقیدی بیان بھی جاری کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ تحریک جہاد پاکستان ایک جعلی تنظیم ہے اور ’ٹی ٹی پی کی پراکسی تنظیم‘ لگتی ہے۔

ٹی ٹی پی نے ماضی میں تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کا اس تنظیم سے تعلق نہیں ہے لیکن وہ تمام ’جہادی‘ تنظیموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

حملوں میں تیزی کی وجہ کیا ہے؟

رفعت اللہ اورکزئی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور خیبر پختونخوا میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے  شدت پسندی کے واقعات کی رپورٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ کچھ دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی میں ضم مختلف تنظیموں کی شدت پسند کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔‘

بقول رفعت اللہ: ’شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر گروپ حملے کر رہا ہے اور یہ تنظیمیں اپنی طرف سے یہ حملے قبول کر رہی ہیں۔ اسی طرح ایک نئی تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے بلوچستان سمیت خیبر پختونخوا میں حملوں کہ ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ساری صورت حال کے حوالے سے رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں: ’حالیہ حملوں کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی ہے، جن کی بظاہر اب مرکزی ٹی ٹی پی سے اختلافات کی باتیں چل رہی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’جماعت الاحرار کی جانب سے حملوں میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

’حملوں میں تیزی کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ افغان طالبان پر پاکستانی حکومت کی جانب سے دباؤ ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان کی زمین استعمال کر کے پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔‘

رفعت اللہ کے مطابق: ’اس دباؤ کی وجہ سے ٹی ٹی پی نے شاید حکمت عملی تبدیل کی اور ان کے مختلف دھڑے حملے کر رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری مرکزی ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول نہیں کی جا رہی۔‘

اورکزئی نے بتایا کہ حملوں میں تیزی کوئی انہونی بات نہیں ہے بلکہ شدت پسند کارروائیاں کبھی کم تو کبھی زیادہ ہوجاتی ہیں، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ پشاور میں ایک مرتبہ پھر خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حملوں کی تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد مبصرین یہی کہتے تھے کہ اب حملوں میں تیزی آئے گی اور اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔‘

افغان طالبان ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کی زمین پر مقیم ہیں اور وہیں سے حملے کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان کی زمین استعمال کر کے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔

پاکستان وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا: ’پاکستان کے افغانستان میں سفیر اسد درانی کے دورہ کابل کا مقصد  یہ ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے حوالے سے افغان طالبان سے بات کریں گے۔‘

رسول داوڑ پشاور میں مقیم صحافی ہیں۔ انہوں نے بھی رفعت اللہ اورکزئی سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے آپس میں ممکنہ اختلافات شدت پسندت کارروائیوں میں اضافے کی ایک وجہ ہیں۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ جتنے بھی واقعات ہوئے، ان کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان نے قبول نہیں کی، بلکہ اس تنظیم کے سابق دھڑوں کے ارکان نے قبول کی ہے۔

رسول داوڑ نے بتایا: ’مختلف دھڑے حملوں سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

تاہم رسول داوڑ سمجھتے ہیں کہ حالات اب بھی 2010 کی طرح نہیں ہیں اور اب بھی ’یہ حملے ماضی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں، جب آئے روز خودکش حملے ہوا کرتے تھے۔‘

’ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے‘

گذشتہ روز ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں پولیس سٹیشن حملے میں جان سے جانے والے افراد کے جنازے میں صوبے کے پولیس سربراہ اختر حیات گنڈاپور نے شرکت کی تھی۔

جنازے کے بعد باڑہ کے ڈی ایس پی اور پولیس سربراہ کی گفتگو کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں ڈی ایس پی جذباتی انداز میں حملے میں جان سے جانے والے پولیس اہلکاروں کے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اب یہ مزید برداشت سے باہر ہے۔‘

جس پر پولیس سربراہ ڈی ایس پی کو دلاسہ دے کر کہتے ہیں: ’آپ بڑے ہیں اور آپ کو حوصلہ رکھنا ہوگا، تاکہ ہم شدت پسندی کا مقابلہ کرسکیں۔ ‘

انڈپینڈنٹ اردو نے پولیس سربراہ اختر حیات گنڈاپور سے موقف دینے کے لیے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ماضی کے واقعات

غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی ایف ایس)، جو سکیورٹی معاملات پر نظر رکھتا ہے، کے مطابق 2022 میں ملک میں شدت پسند حملوں میں 2021 کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

پی آئی ایف ایس کے مطابق 2022 میں مجموعی طور پر ملک بھر میں 262 حملوں میں سے 169 حملے خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع جنوبی وزیرستان کے ہیں، جہاں 30 حملے ہوئے ہیں۔

دوسرے نمبر پر زیادہ حملے شمالی وزیرستان میں 12، لکی مروت میں 13، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر میں 14 حملے ہوئے جبکہ 77 فیصد حملوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

پی آئی ایف ایس کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے حملوں میں 419 افراد جان سے گئے جبکہ 734 زخمی ہوئے۔ اموات کی شرح 2021 کے مقابلے میں 2022 میں 25 فیصد زیادہ رہی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان