امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین یا کسی بھی سیاست دان کے خلاف مقدمات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
پاکستانی جریدے دی نیوز کو جاری کردہ امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ’عمران خان یا کسی اور پاکستانی سیاست دان کے خلاف مقدمات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم پاکستان اور دنیا بھر میں قانون کی عملداری اور جمہوری اصولوں کا احترام کرتے ہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہفتے کو سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کروائیں اور وہ کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے۔‘
جس کے بعد عمران خان کو لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کر کے بذریعہ موٹروے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور عمران خان کے وکیل علی اعجاز بٹر نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی اٹک جیل منتقلی کی تصدیق کی ہے۔
امریکہ کے علاوہ برطانیہ کی وزارت خارجہ نے بھی عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی صورت حال پر نظر رکھ رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برطانوی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ کے پاکستان کے ساتھ طویل قریبی تعلقات ہیں۔ ہم جمہوری اصولوں کی حمایت کرتے ہیں اور قانون کی عملداری کا احترام کرتے ہیں۔ ہم اس صورت حال پر بغور نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
توشہ خانہ کیس کیا ہے؟
بیرون ملک دوروں کے دوران پاکستانی رہنماؤں کو ملنے والے تحائف کو قومی خزانہ یعنی توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔
عمران خان پر الزام ہے کہ 2018 میں بطور وزیراعظم ان کو دورہ سعودی عرب کے دوران قیمتی گھڑی دی گئی تھی جو بعد میں انہوں نے قومی خزانہ سے خریدنے کے بعد بیچ دی تھی۔
عمران خان کو ان تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ظاہر نہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔