’آئندہ برسوں میں شدید گرمی حاجیوں کے لیے جان لیوا ہو سکتی ہے‘

حج کے لیے آنے والے افراد شدید گرمی اور بغیر سائے والی جگہوں پر 20 سے 30 گھنٹے گزارنے کے باعث بڑے خطرات مول لے رہے ہوتے ہیں: تحقیقی رپورٹ

  2047 سے 2052 اور 2079 سے 2086 کے درمیان والے برسوں میں  حج گرم ترین مہینوں میں آئے گا(اے ایف پی)

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں شدید گرمی ہر سال حج کے موقع پر سعودی عرب آنے والے لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔  

دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کے لیے حج ایک ایسی عبادت ہے جو استطاعت کی صورت میں پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ 

نئے مطالعے کے مطابق حج کے لیے آنے والے افراد شدید گرمی اور بغیر سائے والی جگہوں پر 20 سے 30 گھنٹے گزارنے کے باعث بڑے خطرات مول لے رہے ہوتے ہیں۔

حج کے دوران پہلے بھی متعدد جان لیوا واقعات ہو چکے ہیں۔ 1990 میں ہونے والی بھگدڑ میں 1462 جبکہ 2015 میں 769افراد ہلاک اور 934 زخمی ہو ئے تھے۔ ان دونوں برسوں میں اس علاقے میں گرمی کے باعث درجہ حرارت عروج پر تھا۔

میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماحولیاتی سائنس دانوں کے مطابق سعودی حکام کو اس حوالے سے ہر سال حاجیوں کی تعداد محدود کرنے پر غور کرنا ہوگا۔

ایم آئی ٹی میں سول اور ماحولیاتی انجینیئرنگ کے پروفیسر الفتح الطاہر کہتے ہیں ’اگر آپ اتنے گرم موسم میں اتنے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کریں گے تو حادثہ ہونے کا خدشہ کافی زیادہ ہو سکتا ہے۔‘

حج کے لیے مخصوص ایام ہر سال بدلتے رہتے ہیں لیکن یہ2047 سے 2052 اور 2079 سے 2086 کے درمیان والے برسوں میں گرم ترین مہینوں میں آئے گا۔

نمی اور گرمی کی خطرناک سطح کو دیکھتے ہوئے سائنسدان اس صورتحال کو ’ویٹ بلب ٹمپریچر‘ کا نام دیتے ہیں جو پسینے سے جسم ٹھنڈے ہونے کی پیمائش کے کام آتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر فضا میں نمی زیادہ ہے تو ویٹ بلب ٹمپریچر کم ہوگا کیونکہ لوگوں کو پسینہ کم آرہا ہے۔

یو ایس نیشنل ویدر سروسز کے مطابق 39 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت ’خطرناک‘ تصور کیا جاتا ہے۔ ویٹ بلب کے پیمانے پر51 ڈگری کو ’زیادہ خطرناک‘ درجہ حرارت مانا جاتا ہے جس میں ہیٹ سٹروک کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا سٹروک جو دماغ، دل، گردوں اور پٹھوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

جیوفزیکل ریویو لیٹرز کے مطابق سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہر سال ویٹ بلب کے دنوں میں اضافہ کر رہی ہے جس میں موسم’ شدید خطرناک‘ کی حد سے بھی زیادہ گرم  ہوجاتا ہے۔‘

پروفیسر الطاہر کا کہنا ہے کہ ایسی غیر محفوظ صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کرنا سعودی عرب کے حکام کے لیے اہم ہوگا۔

اب بھی کچھ ایسے طریقے زیر استعمال ہیں، جن میں نوزل کے ذریعے پانی کی پھوار کو کھلی جگہ پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن محقیقن کے مطابق آنے والے برسوں میں حاجیوں کی تعداد کو محدود کرنا ضروری ہوگا۔

حکام کے مطابق رواں سال اگست میں ہونے والے حج کے دوران 180ممالک سے 18 لاکھ حاجی جب کہ چھ لاکھ سعودی شہری حج میں شریک ہوئے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا