’کھمبے منتقل کریں یا کرایہ دیں‘: بجلی مہنگی ہونے پر احتجاج

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں نے محکمہ واپڈا کو ان کی ملکیتی زمینوں پر سے بجلی کی تمام تنصیبات کی منتقلی یا معاہدوں کے ذریعے کرایہ ادا کرنے کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

30 نومبر 2005 کی اس تصویر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے مظفرآباد میں ایک اہلکار بجلی کی تاروں کی مرمت کر رہا ہے (تصویر:  بنارس خان/ اے ایف پی)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف کئی ہفتوں سے جاری احتجاج میں ایک نیا موڑ آیا ہے اور اب کئی علاقوں میں مقامی لوگوں نے محکمہ واپڈا کو نوٹس دینا شروع کیے ہیں کہ ان کی ملکیتی زمینوں پر لگائی گئی بجلی کی تنصیبات (کھمبوں) کا کرایہ ادا کیا جائے یا ایک ماہ کے اندر اندر یہ تنصیبات وہاں سے منتقل کی جائیں۔

علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ محکمہ واپڈا صارفین کو خدمات فراہم کرنے کا معاوضہ بجلی کے بلوں کی صورت میں وصول کرتا ہے مگر کئی دہائیوں سے استعمال ہونے والی ملکیتی زمیںوں کا نہ تو کوئی معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے۔

شہریوں نے بجلی کے کنکشن کاٹنے اور میٹر واپس لے جانے کی بھی درخواست کی ہے کیونکہ وہ بجلی کے بھاری بل ادا کرنے کے بجائے جنریٹر یا سولر انرجی کو زیادہ سستا سمجھتے ہیں۔

اس انوکھے احتجاج کی ابتدا راولاکوٹ کے علاقے دریک سے ہوئی اور اب تک راولاکوٹ کے علاوہ وادی نیلم اور کوٹلی کے بعض علاقوں میں بھی ایسے نوٹس محکمہ واپڈا کے حکام کو وصول کروائے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

دریک میں ایک درجن سے زائد شہریوں کے دستخطوں سے ایگزیکٹو انجینیئر واپڈا کے دفتر میں جمع ہونے والے نوٹس میں محکمے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر بجلی کے کھمبے اور دیگر تنصیبات ملکیتی زمینوں سے منتقل کریں اور اپنے بجلی کے کنکشن واپس کریں کیونکہ بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اب وہ بجلی کے بل ادا کرنے کے قابل نہیں اور بجلی کے بجائے جنریٹر یا سولر انرجی کو ترجیح دیں گے۔

یہ نوٹس جمع کروانے والوں میں سے ایک رمضان رحیم نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ برف باری کے موسم میں ان علاقوں میں کئی کھمبے ٹیڑھے ہو جاتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں اور مقامی لوگوں کے لیے ایک مستقل خطرہ بنے رہتے ہیں۔

ان کے بقول: ’محکمہ واپڈا ان کھمبوں کو تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ ان کھمبوں اور ان کے ساتھ لٹکتی تاروں کی وجہ سے اب تک کئی شہریوں کی جانیں جا چکی ہیں اورکئی معذور ہو چکے ہیں۔ ہر سال بجلی کی لائنوں کے راستے میں آنے والے سینکڑوں پھل دار درختوں کو شاخ تراشی کے نام پر کاٹ دیا جاتا ہے، مگر لوگوں کو کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے اور نہ محکمہ واپڈا بلوں میں کوئی رعایت برتتا ہے۔‘

رمضان نے مزید کہا کہ ’حکومت نے اس معاملے پر کوئی واضح  پالیسی اختیار نہیں کر رکھی اور نہ ہی عام شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی کی گئی ہے، اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ معاوضہ لے کر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے ساتھ اب کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔‘

وادی نیلم کے علاقے کنڈل شاہی سے اس تحریک میں شامل مقامی کونسلر نصیر الدین مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کہ ان کے علاقے میں کئی جگہوں پر بجلی کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنیں شہریوں کے گھروں کے اوپر سے اور پھل دار درختوں کو ٹکرا کر گزرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں: ’ابھی چند ہفتے قبل کیاں شریف نامی گاؤں میں جواں سال بچہ اسی طرح پھل دار درخت سے پھل اتارتے ہوئے کرنٹ لگنے سے چل بسا۔ اس جگہ کی شکائیت کئی مرتبہ محکمہ واپڈا کے عملے کو کی گئی مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘

 نصیر الدین مغل کے مطابق پھل دار درختوں کے درمیان سے گزرنے والی تاروں کے ساتھ جب تاریں ٹکراتی ہیں تو یا تو بجلی بند ہو جاتی ہے یا پھر کرنٹ پھیل جاتا ہے اور جانور اور انسان متاثر ہوتے ہیں۔

’محکمہ واپڈا کے پاس اس کا آسان حل درختوں کو کاٹنا ہے۔ محکمے کے اہلکار ہر سال بغیر کوئی معاوضہ ادا کیے شاخ تراشی کے نام پر ہزاروں درخت کاٹ دیتے ہیں، جس سے مقامی زمینداروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’زمینداروں کو معاوضہ دینا تو دور کی بات محکمہ واپڈا کرنٹ لگنے سے جان سے جانے والوں، زخمی یا معذور ہونے والے افراد کو بھی کسی قسم کا معاوضہ ادا نہیں کرتا۔‘

چند ہفتے قبل اسی طرح کا ایک واقعہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے ضلع باغ میں پیش آیا تھا، جہاں چھت پر کھیلتی دو جواں سال بہنیں بجلی کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن سے ٹکرا کر بری طرح جھلس گئی تھیں۔

ضلع باغ سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی شہزاد خان کے مطابق دونوں بہنیں اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کے کئی اعضاء مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔

شہزاد خان کے بقول اس معاملے کا مقدمہ درج ہوا اور مقامی ایکسیئن سمیت چار اہلکار گرفتار بھی ہوئے، مگر چند ہی روز بعد رہا کردیے گئے۔

کوٹلی کے علاقے سروعہ سے بھی شہریوں نے مقامی ایکسیئن کے دفتر میں نوٹس جمع کروایا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر بجلی کے کنکشن واپس کریں اور ان کے ساتھ بجلی کے کھمبے لگانے کا معاہدہ کریں۔

نوٹس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک ماہ بعد کھمبے منتقل نہ ہوئے یا معاہدہ نہ کیا گیا تو شہری بجلی کا بل ادا نہیں کریں گے بلکہ کھمبوں کی منتقلی یا معاہدے تک مفت بجلی استعمال کریں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے محکمہ واپڈا کے متعدد حکام سے رابطہ کیا مگر کوئی بھی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوا۔

چیف انجینیئر واپڈا مظفرآباد چوہدری ظفر محمود کا کہنا تھا کہ ان کے دفتر میں ابھی تک ایسا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ جب موصول ہو گا تو وہ اس پر جو بھی قانونی طریقہ کار متعین ہے، اس کے تحت اعلیٰ حکام کی مشاورت سے کارروائی کریں گے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہے اور اب اس میں شدت آ گئی ہے۔

مظفرآباد ڈویژن کے تین اضلاع نیلم، مظفرآباد اور جہلم ویلی میں تاجروں اور سول سوسائٹی کی تنظمیوں نے 31 اگست کو مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ پونچھ ڈویژن میں پانچ ستمبر کو مکمل ہڑتال کی تیاریاں ہو رہی ہیں جبکہ میرپور ڈویژن میں بھی وکلا کی تنظیمیں وسیع پیمانے پر احتجاج کر رہی ہیں۔

دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں صارفین نے رواں ماہ بجلی کے بل جمع کروانے کے بجائے اکٹھے کرکے جلا دیے ہیں۔

 پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے گذشتہ ہفتے بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافہ وقتی طور پر معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ صارفین محکمہ واپڈا کے مقامی دفاتر سے بلوں کی درستی کروا کر سابق شرح کے مطابق بل ادا کر سکتے ہیں تاہم احتجاج کرنے والوں نے بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کو واپس لینے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان