بجلی کے بل میں پاکستانی صارفین کیا کیا ادا کرتے ہیں؟

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کے صارفین کو جو بل موصول ہوتے ہیں ان میں کیا کچھ لکھا ہوتا ہے اور ان سے کس مد میں کتنی رقم وصول کی جاتی ہے۔

23 اگست 2023 کو کراچی کی ایک سڑک پر ایک احتجاج کے دوران تاجر پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عرے لگا رہے ہیں (آصف حسن/ اے ایف پی)

پاکستان میں گذشتہ چند روز سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے، جس میں ملک کے کئی شہروں میں سڑکیں بلاک کیے جانے کے علاوہ کم از کم دو افراد نے مبینہ طور پر بجلی کا زیادہ بل آنے کی وجہ سے خود کشیاں کر لی ہیں۔

درجنوں بڑے شہروں اور دور دراز کے قصبوں میں دسیوں ہزار لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور بجلی کے بل جلانے کے علاوہ پاور کمپنیوں کے دفاتر کے باہر دھرنے بھی دیے۔ 

پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں۔

ردج ذیل سطور میں بتائیں گے کہ ہر بجلی کے صارف کے گھر آنے والے بجلی کے بل میں کیا کچھ لکھا ہوتا ہے اور ان سے کس مد میں کتنی رقم وصول کی جاتی ہے۔

بجلی کے بل کے اوپری حصے میں عمومی تفصیلات، جن میں صارف کا نام، کنزیومر نمبر اور آئی ڈی، گرِڈ سٹیشن اور گذشتہ کچھ مہینوں کے صرف شدہ یونٹس اور ادا کی گئی رقوم کا اندراج ہوتا ہے، جبکہ بل کے درمیان والے حصے میں پر دو طرح کے چارجز کی تفصیلات درج ہوتی ہیں، جن میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے چارجز (بل کے بائیں طرف) اور حکومتی چارجز (بل کے درمیان میں) شامل ہیں، جبکہ دائیں طرف کے حصے میں مجموعی چارجز کا ذکر ہوتا ہے۔

تقسیم کار کمپنی کے چارجز

بجلی کے بل کے دائیں طرف بنے خانوں میں وہ تفصیلات ہیں، جن کا تعلق تقسیم کار کمپنی (آئیسکو، لیسکو، پیسکو وغیرہ) سے ہوتا ہے۔

بل کے اس حصے کے پہلے خانے میں جس مہینے کا بل آپ کو موصول ہوا ہے اس کے دوران صرف شدہ بجلی کے یونٹس کی تعداد درج ہوتی ہے۔

ان صرف شدہ یونٹس کا خرچ کتنا آیا ہے اس کا حساب بل کے اسی حصے کے بالکل نیچے (Bill Calculation) کے خانے میں درج ہوتا ہے، جہاں صرف شدہ یونٹس کو فی یونٹ قیمت کے ساتھ ضرب دے کر بجلی کی اس مہینے کی قیمت نکالی جاتی ہے اور اس قیمت کا اندراج اوپر سے دوسرے خانے میں کیا جاتا ہے۔

بجلی کی قیمت نکالنے کا طریقہ

مخصوص مہینے میں صرف شدہ یونٹس کی قیمت معلوم کرنے کے لیے سلیبز بنائے گئے ہیں، جبکہ ایک دن کے دوران خرچ کا وقت بھی اہم ہوتا ہے۔

صارفین کی تقسیم

بجلی صرف کرنے کے مطابق گھریلوں صارفین کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، جنہیں محفوظ (Protected) اور غیر محفوظ (Non-Protected) صارفین کے نام دیے گئے ہیں اور دونوں کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت مختلف ہے۔

محفوظ صارفین سے مراد کم بجلی خرچ کرنے والے لوگ ہیں اور ان کے لیے فی یونٹ قیمتیں جدول میں درج ہے۔ تاہم جدول میں دیے گئے ریٹس کا اطلاق صرف ان صارفین پر ہوتا ہے، جو چھ ماہ تک مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر مہینے 50 یونٹس تک خرچ کرتے ہیں۔

غیر مستقل مزاجی کا مظاہرہ (چھ مہینوں میں سے کسی بھی مہینے 50 یونٹس سے زیادہ خرچ) کرنے والے صارفین کو کم ریٹس کی سہولت نہیں دی جاتی اور ان پر غیر محفوظ صارفین کے لیے بنائے گئے نرخوں کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

غیر محفوظ صارفین کے لیے بنائے گئے سلیبز کی تفصیل اور بجلی کے فی یونٹ قیمتیں مندرجہ ذیل جدول میں دی گئی ہیں۔

بجلی کی قیمت کا حساب لگانے کے لیے خرچ کیے گئے یونٹس کی تعداد کے علاوہ وہ 24 گھنٹوں کے دوران بجلی کس وقت خرچ کی گئی بھی اہمیت رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں دن کو پِیک آورز (شام 7 سے رات 11 بجے تک) اور نان پِیک آورز (رات 11.01 سے اگلے دن شام 6.59 بجے تک) میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کے فی یونٹ ریٹس بالترتیب 49.35 روپے اور 33.30 روپے ہیں۔

فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے)

بل پر دائیں طرف بنے پانچویں خانے میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یا فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کی مد میں وصول کی جانے والی رقم درج ہوتی ہے۔

ایف پی اے یا ایف سی اے ہر مہینے مختلف ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ پاکستان میں بجلی کی سپلائی کو ریگولیٹ کرنے کا ذمہ دار ادارہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کرتا ہے۔

نیپرا کے مطابق فیول لاگت کی قیمتوں میں حقیقی اضافہ یا کمی کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کی صورت میں صارفین کے ماہانہ بلوں میں ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔

عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ کے طاہر عباس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ نیپرا ایک مہینے کے دوران بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کوئلے، ایل این جی اور فرنس آئل جیسے ایندھن کے مختلف ذرائع کی کل لاگت کا اندازہ لگا ایف پی اے کا حساب لگاتا ہے۔

بجلی کے بل پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا ریٹ (Fuel Price Adjustment for [email protected]/KWH) بل پر نیچے ایک خانے میں درج ہوتا ہے۔

باسکٹ فیول کی لاگت کا موازنہ نیپرا کے حوالہ ایندھن کی لاگت سے کیا جاتا ہے اور پھر ایڈجسٹمنٹ کو دو ماہ کے بعد صارفین کے بجلی کے بلوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

اگر کسی مخصوص مہینے میں ایندھن کی کل لاگت ریفرنس لاگت سے زیادہ ہے تو اضافی رقم صارفین کے بل میں شامل کر دی جائے گی اور اگر ایندھن کی قیمت ریفرنس لاگت سے کم ہے تو اس رقم کو بل سے منہا کر دیا جائے گا۔

ماضی میں حکومت ایف پی اے کی مد میں بجلی صارفین کو سبسڈی دیتی تھی جس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ بڑھا، مہنگائی ہوئی اور ریاست کو مزید قرضے لینا پڑتے۔

ایف سی سرچارج

بجلی کے بل کے بائیں طرف چھٹے خانے میں فنانس کاسٹ (ایف سی) سرچارج درج ہوتا ہے، جو وفاقی حکومت 43 پیسے فی کلو واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے وصول کرتی ہے۔ تاہم یہ کم یونٹس خرچ کرنے والے گھریلو صارفین پر لاگو نہیں ہوتا۔

وفاقی حکومت نے اس سال یکم جولائی سے فنانسنگ کاسٹ سرچارج وصول کرنا شروع کیا تھا، جس کا مقصد پاور سیکٹر کے قرضوں اور واجبات کی مالی اعانت کے لیے 335 ارب روپے جمع کرنا تھا، جن کا کل حجم جو کہ 2.6 ٹریلین روپے ہے۔

سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ڈسٹری بیوشن مارجن چارجز

یہ چارجز بل کے دائیں طرف بنے آٹھویں خانے میں درج ہوتے ہیں اور ان کا مقصد بین الاقوامی منڈی اور اس کی مصنوعات، فرنس آئل، کوئلے اور آر ایل این جی کی قیمتوں میں کمی بیشی کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔

مندرجہ بالا سطور میں ذکر ہونے والی وہ رقوم ہیں جو بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے صارفین سے وصول کرتی ہیں جن کا مجموعہ نویں خانے میں درج کیا جاتا ہے۔

حکومتی چارجز

اب ہم حکومت کی جانب سے بجلی صارفین پر لاگو ہونے والے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا ذکر کریں گے۔

حکومتی ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی تفصیلات بل کے درمیان کے حصے میں درج ہوتی ہیں۔

بجلی پر ڈیوٹی (الیکٹریسٹی ڈیوٹی)

وفاقی حکومت بجلی صارفین سے 1.5 فیصد کی شرح سے بجلی کی لاگت، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ڈسٹری بیوشن مارجن چارجز پر ڈیوٹی وصول کرتی ہے، جو بل میں حکومتی چارجز والے حصے کے پہلے خانے میں درج ہوتی ہے۔

ٹی وی کی فیس

بجلی کے بل میں ہر صارف سے ماہانہ 35 روپے ٹی کی فیس بھی وصول کی جاتی ہے، جو دوسرے خانے میں درج ہوتی ہے۔ یہ دوسرے خانے میں درج ہوتی ہے۔

جی ایس ٹی

وفاقی حکومت 17 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی یا جنرل سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے اور یہ بجلی کی لاگت، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ڈسٹری بیوشن مارجن چارجز، الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور فنانس کاسٹ سرچارج پر لاگو ہوتا ہے۔

جی ایس ٹی کی رقم تیسرے خانے میں درج کی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

این جے سرچارج (نیلم جہلم سرچارج)

تقریباً ایک ہزار میگا واٹ گنجائش کے نیلم جہلم ڈیم کی تعمیر کی غرض سے وفاقی حکومت بجلی صارفین سے 2008 سے 10 پیسے فی یونٹ کے حساب سے یہ سرچارج وصول کر رہی ہے، جس کا اندراج ساتویں خانے میں کیا جاتا ہے۔

ایف پی اے پر ڈیوٹی اور ٹیکس

بجلی کا صارف تقسیم کار کمپنی کو جو جیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ یا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ادا کرتا ہے اس پر وفاقی حکومت مختلف ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگاتی ہے، جن کی تفصیلات بل کے درمیانی حصے میں بنے گیارہویں خانے میں درج ہوتی ہیں۔

ایف پی اے پر 1.5 فیصد کے حساب سے الیکٹریسٹی ڈیوٹی چارج کی جاتی ہے، جبکہ ایف پی اے اور الیکٹریسٹی ڈیوٹی پر مجموعی طور پر 17 فیصد جرل سیلز ٹیکس بھی لاگو کیا جاتا ہے۔

بل کے اس حصے کے آخری خانے میں حکومتی چارجز کا مجموعہ درج کیا جاتا ہے۔

مجموعی چارجز

بجلی کے بل کے بالکل دائیں جانب والے حصے میں مجموعی چارجز درج کیے جاتے ہیں۔

اس حصے کے دوسرے خانے میں موجودہ بل یا کرنٹ بل کے خانے میں ایف پی کے علاوہ بجلی کی قیمت اور دوسرے ٹیکسز و ڈیوٹیز کا مجموعہ درج ہوتا ہے، جبکہ چھٹے خانے میں کل ایف پی اے کی رقم درج کی جاتی ہے اور ان دونوں رقوم کے مجموعے سے واجب الادا بل کی رقم نکالی جاتی ہے۔

ان چارجز کے علاوہ صوبائی حکومتیں بھی بعض اوقات کچھ ٹیکسز اور ڈیوٹیز عائد کرتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان