سارہ شریف کیس: والد اور سوتیلی والدہ حکام سے تعاون کو تیار

ایک ویڈیو میں سارہ کی موت کو ’حادثہ‘ قرار دیتے ہوئے بینش بتول نے کہا: ’میری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ پاکستانی پولیس ہمیں تشدد کا نشانہ بنائے گی یا مار دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چھپ گئے ہیں۔‘

برطانیہ کی کاؤنٹی سرے کے علاقے ووکنگ کے ایک گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ سارہ شریف کے پاکستان فرار ہونے والے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ بینش بتول نے بدھ (چھ ستمبر) کو کہا ہے کہ وہ سارہ کی موت کی تحقیقات کے سلسلے میں حکام کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔

سارہ 10 اگست کو سرے کے علاقے ووکنگ میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔ برطانوی پولیس قتل کی اپنی تحقیقات کے سلسلے میں سارہ کے خاندان کے تین افراد کی تلاش میں ہے، جن میں 41 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 29 سالہ بینش بتول اور ان کے 28 سالہ بھائی فیصل شامل ہیں۔

یہ تینوں افراد نو اگست کو اسلام آباد چلے گئے تھے۔ سرے پولیس نے بتایا کہ یہ خاندان اپنے ساتھ پانچ بچوں کو لے کر گیا، جن کی عمریں ایک سے 13 سال کے درمیان ہیں۔

رشتہ داروں کی جانب سے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں بینش بتول نے کہا کہ ’سارہ کی موت حادثے کا نتیجہ تھی۔ پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ہمارا خاندان اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

’میری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ پاکستانی پولیس ہمیں تشدد کا نشانہ بنائے گی یا مار دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چھپ گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم برطانوی حکام کے ساتھ تعاون کرنے اور عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘

ڈھائی منٹ کی اس ویڈیو کلپ میں عرفان شریف خاموش رہے جب کہ بتول ایک نوٹ بک سے پڑھ کر جملے ادا کرتی ہیں۔ اس ویڈیو کلپ میں فیصل ملک نظر نہیں آئے۔

بینش بتول کے مطابق: ’ہمارے خاندان کے تمام افراد روپوش ہیں کیوں کہ ہر کوئی اپنی حفاظت کے بارے میں خوفزدہ ہے۔‘

برطانیہ میں وکلا کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے بچی کی موت کی تحقیقات کے لیے خاندان کے لوگوں کی برطانیہ حوالگی روکے جانے کا امکان نہیں ہے۔

اگرچہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہے لیکن اس سے پہلے بھی ایشیائی ملک سے لوگوں کو برطانیہ واپس لایا گیا ہے۔

میری بیٹی بری طرح زخمی تھی، مشکل سے پہچانا: والدہ سارہ شریف

دوسری جانب بچی کی والدہ اولگا نے کہا ہے کہ انہوں نے مردہ خانے میں اپنی بیٹی کو مشکل سے پہچانا کیوں کہ وہ بری طرح زخمی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویب سائٹ آئی ٹی وی ڈاٹ کام کے مطابق پولینڈ کے چینل ’ٹی وی این‘ کو دیے گئے انٹرویو میں سارہ کی والدہ اولگا شریف کا کہنا تھا کہ ’سارہ کا ایک گال سوجا ہوا تھا اور دوسرے پر خراشیں تھیں۔

’اب بھی جب میں اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں تو میں دیکھ سکتی ہوں کہ میری بچی کی کیا حالت تھی۔‘

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ’سارہ کو مسلسل اور طویل مدت میں متعدد اور کئی زخم آئے۔‘

موت کے وقت سارہ اپنے والد عرفان شریف اور ان کی اہلیہ بینش بتول کے ساتھ رہ رہی تھیں۔

اولگا شریف کا مزید کہنا تھا کہ وہ 2015 میں شوہر سے علیحدہ ہو گئی تھیں اور سارہ اور ان کا بڑا بیٹا 2019 تک ان کے ساتھ رہ رہے تھے، جس کے بعد فیملی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بچوں کو والد کے ساتھ رہنا چاہیے۔

اولگا شریف کو اب بھی بچوں سے ملنے کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابتدائی طور پر ایسا کرنا آسان تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مرحلہ مشکل ہوتا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا