برطانیہ کی کاؤنٹی سرے کے علاقے ووکنگ کے ایک گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ سارہ شریف کے والد کے آخری وٹس ایپ پیغامات منظر عام پر آئے ہیں، جبکہ ان کی تلاش بین الاقوامی سطح پر جاری ہے۔
عرفان شریف نے آٹھ اگست کی رات 10 بجے سے کچھ دیر قبل کاروباری شخص ندیم ریاض کو پیغام بھیجا، جس میں فوری طور پر اسلام آباد کے لیے پرواز کے آٹھ ٹکٹوں کی بکنگ کا کہا گیا۔
منی ٹرانسفر کی دکان اور ایڈہاک ٹریول ایجنسی کے مالک ندیم ریاض کو اس وقت اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ جس کلائنٹ کو 11 سال سے جانتے ہیں، وہ اپنے پیچھے ایک بچی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
46 سالہ ریاض نے دی ٹائمز کو بتایا: ’انہوں نے کہا کہ انہیں جتنی جلدی ممکن ہو سکے (ٹکٹ) چاہیے۔
’میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان کے کزن کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ نارمل اور معمول کے مطابق لگ رہے تھے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کس قسم کے ٹکٹ چاہییں تو عرفان شریف نے صرف دو لفظی جواب دیا: ’یک طرفہ۔‘
41 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 29 سالہ بینش بتول اور ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک تفتیش کے لیے مطلوب ہیں لیکن پاکستان میں ان کے رشتہ داروں کے گھر چھاپوں کے باوجود تینوں کا سراغ نہیں مل سکا۔
ندیم ریاض نے کہا کہ عرفان شریف چند منٹوں کے اندر وٹس ایپ پر اپ ڈیٹس چاہتے تھے اور رات 10 بج کر 12 منٹ پر انہوں نے پوچھا کہ ’اینی لَک؟‘
24 گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد عرفان شریف دوپہر دو بجے ہیتھرو ایئرپورٹ سے براستہ بحرین اسلام آباد جانے والی پرواز میں سوار ہوئے۔ ایک سے 13 سال کے درمیان عمر کے پانچ بچے، بینش بتول اور فیصل ملک بھی ان کے ساتھ تھے۔
آخری وقت پر خریدے گئے پرواز کے ٹکٹوں کی قیمت پانچ ہزار 180 پاؤنڈ تھی۔
اسلام آباد پہنچنے کے بعد عرفان شریف نے برطانوی پولیس کو فون کرکے بتایا کہ ان کی بیٹی سارہ کی لاش ہیمنڈ روڈ پر واقع گھر میں موجود ہے۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلتا ہے کہ 10 سالہ بچی کو کافی عرصے تک گہرے زخم رہے تھے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرے کاؤنٹی کونسل سے تعلق رکھنے والی سارہ کو اپریل میں سکول میں دیکھا گیا تھا، جبکہ ان چہرے اور گردن پر چوٹیں تھیں۔
سارہ کی پڑوسن، جن کی شناخت بی بی سی نے جیسیکا کے نام سے ظاہر کی، کے بقول ان کی بیٹی نے انہیں بتایا کہ سارہ زخمی حالت میں سکول گئی تھی لیکن جب ان (زخموں) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ موٹر سائیکل سے گر گئی تھیں۔
جیسیکا نے بی بی سی کو بتایا: ’ایسٹر کی تعطیلات سے ٹھیک پہلے وہ سکول میں تھیں اور ان کے چہرے اور گردن پر زخم اور چوٹیں تھیں۔ میری بیٹی نے پوچھا تھا کہ کیا ہوا ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ وہ موٹر سائیکل سے گر گئی تھیں اور پھر وہ چلی گئیں۔ اگلے دن ٹیچر نے اعلان کیا کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے اور انہیں گھر میں ہی پڑھایا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور پڑوسی نے اسی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انہوں نے سارہ کو کبھی ’مسکراتے یا ہنستے‘ نہیں دیکھا۔ وہ ایک ’خاموش‘ اور ’محتاط‘ بچی کی طرح لگتی تھی۔
بینش بتول کی ایک کزن نے اب ان پر زور دیا ہے کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کر دیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک رشتہ دار نے سکائی نیوز کو بتایا: ’بینش کو برطانیہ واپس آنا چاہیے۔ میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہیں، لیکن میں ان کے بارے میں فکر مند ہوں۔ میں ان کے بچوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔ انہیں برطانیہ واپس آنا چاہیے اور پولیس کے پاس جاکر انہیں بتانا چاہیے کہ کیا ہوا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں نہیں جانتی – میرے گھر والوں کو نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ یہ ایک حادثہ، ایک غلط فہمی ہو سکتی ہے۔‘
سارہ کے دادا محمد شریف نے بتایا کہ ان کا بیٹاعرفان گذشتہ ماہ کے شروع میں صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں اپنے اہل خانہ کے گھر گیا تھا، جس کے بعد وہ دوبارہ لاپتہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے نے انہیں سارہ کی موت کے بارے میں نہیں بتایا۔
انہوں نے سنڈے ٹائمز کو بتایا: ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ خود کو پیش کر دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو حل کریں کیونکہ بار بار پولیس کے چھاپوں کی وجہ سے ہمارے گھر کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔‘
معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص آپریشن یونیسن کا حوالہ دیتے ہوئے 101 پر کال یا 0800 555 111 پر کرائم سٹاپرز سے رابطہ کر سکتا ہے۔
© The Independent