برطانیہ کی کاؤنٹی سرے کے علاقے ووکنگ کے ایک گھر میں رواں ماہ کے آغاز میں مردہ پائی گئی 10 سالہ سارہ شریف کی موت کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی، تاہم تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ بچی کی موت ممکنہ طور پر ’غیر فطری‘ تھی۔
سارہ کی لاش 10 اگست کو ووکنگ میں ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی، جہاں اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اس سے ایک روز قبل ان کا خاندان پاکستان چلا گیا تھا۔
لندن پولیس کی درخواست پر پاکستان میں پولیس بچی کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک کی تلاش ہو رہی ہے۔
برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ سارہ کے 41 سالہ والد عرفان شریف نے اسلام آباد سے 999 پر کال کی تھی، جس کے نتیجے میں انہیں بچی کی لاش ملی۔
دی گارڈین کے مطابق سرے کی عدالت میں منگل (29 اگست) کو سماعت کے دوران انکشاف کیا گیا کہ بچی کی موت کی اصل وجہ ’ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی‘ لیکن امکان ہے کہ یہ ’غیر فطری‘ ہے۔
عرفان شریف کے بھائی عمران شریف نے جہلم پولیس کی تحویل میں بتایا تھا کہ ان کی بھتیجی ’سیڑھیوں سے گری اور اس کی گردن ٹوٹ گئی تھی۔‘
تفتیش کار سائمن ویکنز نے تفتیش کی کارروائی 29 فروری تک ملتوی کردی تاکہ سرے پولیس تحقیقات جاری رکھ سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سارہ کی زندگی سے متاثر ہونے والے تمام لوگوں کے ساتھ ’تعزیت‘ کا اظہار بھی کیا۔
پولیس کا خیال ہے کہ عرفان شریف کی ساتھی 29 سالہ بینش بتول اور ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک بھی سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل اسلام آباد گئے تھے۔ پاکستان اور برطانیہ کے تفتیش کار اس خاندان کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان پولیس نے اپنی تلاش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اسے جہلم شہر کے ارد گرد کے دو مزید علاقوں تک پھیلا دیا ہے۔
سارہ کے دادا 61 سالہ محمد شریف نے بھی ان تینوں پر زور دیا ہے کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے سنڈے ٹائمز کو بتایا: ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو حل کریں کیونکہ بار بار پولیس چھاپوں کی وجہ سے ہمارے گھر کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عرفان نے انہیں سارہ کی موت کے بارے میں نہیں بتایا۔
تفتیش کے لیے زیادہ ٹائم ملتے ہی سرے پولیس نے معلومات کے لیے پھر ایک اپیل کی ہے، جس سے سارہ کی موت سے پہلے کی زندگی کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اس سے پہلے لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بچی کو متعدد چوٹیں آئی تھیں، جو طویل عرصے تک رہیں۔
سارہ کے پڑوسی کا کہنا ہے کہ موت سے کئی ماہ قبل اس چھوٹی بچی کو سکول میں دیکھا گیا تھا اور اس کے چہرے پر زخم اور چوٹیں تھیں۔
پڑوسی نے بی بی سی کو بتایا تھا: ’میری بیٹی نے پوچھا تھا کہ کیا ہوا ہے تو سارہ نے بتایا کہ وہ موٹر سائیکل سے گر گئی ہے۔ اگلے دن ٹیچر نے اعلان کیا کہ سارہ نے سکول چھوڑ دیا ہے اور وہ گھر میں ہی پڑھیں گی۔‘
ماہر افسران سارہ کی والدہ اولگا شریف کی مدد کر رہے ہیں۔