پاکستان، افغانستان تجارت بینکنگ چینلز سے کیوں نہیں ہو سکتی؟

افغان امور کے ایک ماہر نے کہا کہ جب تک دونوں ملکوں کے درمیان تجارت عالمی قوانین اور مضبوط سکریننگ نظام کے تحت نہیں ہو گی پاکستانی معیشت خون بہاتی رہے گی۔

11 نومبر، 2021 کو کابل کی سبزی منڈی میں پاکستان جانے والے ٹرک پر انار کے ڈبے لادے جا رہے ہیں (اے ایف پی/ ہیکٹر ریٹامل)

ریاض وٹو کا تعلق اوکاڑہ سے ہے۔ وہ ایک بڑے زمین دار ہیں اور پاکستان افغان سرحد پر سمگلنگ سے براہ راست متاثر ہیں۔

ریاض کا کہنا ہے کہ جیسے ہی افغانستان میں سمگلنگ بڑھتی ہے، کسانوں کے لیے بیج اور فرٹیلائزر مہنگا ہو جاتا ہے لیکن جب سے سرحد پر سختی ہوئی ہے، فرٹیلائزر کی قیمت تقریباً دو ہزار روپے کم ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کل نئی فصل لگانے کا موسم ہے، جس کے لیے بیج کی ضرورت ہے، گندم کا بیچ چار ہزار روپے کا تھا، جو سمگلنگ رکنے کی وجہ سے اب کم ہو کر تین ہزار روپے تک آ گیا ہے۔

کریک ڈاؤن سے گندم کی قیمت پانچ ہزار روپے سے کم ہو کر چار ہزار روپے تک آ گئی اور مکئی کی قیمت واپس دو ہزار دو سو روپے تک آ گئی۔

انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ افغان سرحد کھلنے سے فصل کا ریٹ بڑھتا ہے اور فائدہ کسان کو ہوتا ہے۔ ’کسان کم قیمت پر اپنی فصل مڈل مین کو بیچتا ہے، مڈل مین اور ذخیرہ اندوز اسے سٹاک کرتے ہیں اور قلت پیدا کر کے افغانستان سمگل کرتے ہیں جس سے مہنگائی بڑھتی ہے اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ کسان پیسہ کما رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’افغان سرحد پر سختی کرنے سے مجھے فائدہ ہوا۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو فصل بونے کے میرے اخراجات کم ہو جائیں گے۔‘

بقول ریاض: ’اطلاعات ہیں کہ افغان سرحد دوبارہ کھول دی گئی ہے۔ اگر اصلاحات کیے بغیر اسے کھولا گیا تو مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔‘

دفاعی تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر بریگیڈیئر (ر) غضنفر نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت غیر رجسٹرڈ اور سمگلنگ میں ملوث افغانوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، جس کے مثبت اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔

ڈالر ریٹ کم ہو رہا ہے، چینی کی قیمت میں کمی آئی ہے اور دیگر اجناس بھی سستی ہو رہی ہیں۔‘

ان کے مطابق جب تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت عالمی قوانین اور مضبوط سکریننگ نظام کے تحت نہیں ہو گی، پاکستانی معیشت خون بہاتی رہے گی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بڑی وجہ افغانستان سمگلنگ ہے، طالبان حکومت آنے کے بعد تقریباً چھ لاکھ افغان شہری پاکستان آئے جو ملک میں عسکریت پسندی اور معیشت کی خرابی کا سبب بن رہے ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) غضنفر نے سوال اٹھایا: ’پاکستان اپنا بوجھ اٹھائے یا افغانوں کا؟ افغان تاجر ڈالر سمگل کر رہے ہیں۔ امریکی ہتھیار پاکستان سمگل کر کے پاکستان کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ تقریباً سات ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان چھوڑ کر گئے، جس سے پورا خطہ بدامنی کا شکار ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وانا سے چمن تک سمگلنگ زیادہ ہوتی ہے۔ ’میرے خیال میں ٹریڈ روٹ 75 فیصد بند ہونا چاہیے۔ افغان چار ارب ڈالرز کی ضرورت پاکستان سے پوری کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے مطابق افغان ٹریڈ پر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگنی چاہے۔ ’بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت پاکستان ایسا نہیں کرتی۔ ایف بی آر اور کسٹم اہلکار سرحد پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ ٹرکوں کو بغیر کوئی ٹیکس لگائے پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان جانے دیا جاتا ہے۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ اس پر فی الحال قابو پایا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔‘

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر میاں نعیم جاوید سمجھتے ہیں کہ ’پاک افغان ٹرانزٹ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ تقریباً 300 ارب روپے کی سمگلنگ اس کے ذریعے ہوتی ہے۔‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’پاکستان سے افغانستان جانے والا اکثر مال افغان سرحد پر ہی فروخت کر دیا جاتا ہے۔ برآمدات کے نام پر کاغذات پر مہر لگا کر فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔

’اس کاغذی برآمدات کے بدلے ڈالر پاکستان نہیں آتے، جس سے پاکستانی معیشت کو اربوں روپوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے قابو کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ جب سے ڈالر کی افغانستان سمگلنگ رکی ہے، افغان کرنسی 4.18 سے گر کر 3.77 پر آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان کرنسی تقریباً 10 فیصد گر گئی، اگر کارروائی جاری رہی تو یہ تین روپے تک گر جائے گی۔

بقول ظفر پراچہ: ’یہ غلط تاثر دیا جا رہا تھا کہ افغانستان ترقی کر رہا ہے، اس لیے افغان کرنسی کی قیمت میں چند دن پہلے اضافہ دیکھا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت بینکنگ چینلز کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں بینکنگ نظام موجود ہے اور کام بھی کر رہا ہے۔ پاکستان کے نیشنل بینک کی برانچ افغانستان میں موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ہمارے سیاست دان جان بوجھ کر قانون اور نظام میں سقم رہنے دیتے ہیں تاکہ غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔

’سرحد پر تجارت کو شفاف کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اگر سیاست دان چاہیں تو 24 گھنٹوں میں نظام درست ہو سکتا ہے۔‘

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری میجر (ر) جاوید بخاری نے کہا کہ ’سمگلنگ دیمک کی طرح ملک کو چاٹ رہی ہے، جسے بند ہونا چاہے۔

’سمگلنگ کے خلاف اقدامات کرنے پر ہم آرمی چیف کے شکر گزار ہیں، لیکن قانونی اور غیر قانونی تجارت میں تفریق کی ضرورت ہے۔

’سمگلنگ کے باعث سرحد بند ہونے سے قانونی کاروبار کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پولٹری کی تجارت کے لیے خیبرپختونخوا حکومت اور افغانستان کے درمیان معاہدے کیے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغان کرنسی کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے ادائیگی ہوتی ہے، یہ نظام بہت صاف شفاف ہے۔

’پاکستان میں چکن کی کھپت پیداوار کا صرف 40 فیصد ہے، بقیہ افغانستان ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ پاکستانی چکن اور انڈے جلال آباد تک جاتے ہیں۔

’پاکستان میں اس وقت انڈے اور چکن نقصان پر فروخت ہو رہے ہیں۔ کیونکہ رسد زیادہ اور طلب کم ہے۔ اس سے مہنگائی میں کمی ضرور ہوگی لیکن قیمت پولٹری کاروبار کرنے والوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت