برطانیہ کی یورپی یونین میں بطور ایسوسی ایٹ رکن شمولیت کی کوشش

فرانس اور جرمنی برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کو یورپی یونین کی ’ایسوسی ایٹ ممبرشپ‘ کی پیشکش کرنے کے منصوبوں پر زور دے رہے ہیں جس سے اس بلاک کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات دوبارہ استوار ہو سکتے ہیں۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں برطانیہ کے کیئر سٹارمر سے ہاتھ ملا رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ برطانیہ فرانس کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتا ہے (لارینٹ بلیونس /  فرانسیسی ایوان صدر)

فرانس اور جرمنی برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کو یورپی یونین کی ’ایسوسی ایٹ ممبرشپ‘ کی پیشکش کرنے کے منصوبوں پر زور دے رہے ہیں جس سے اس بلاک کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات دوبارہ استوار ہو سکتے ہیں۔

دونوں ممالک نے ایک بلیو پرنٹ پیش کیا ہے جس کے تحت نئے چار درجے بنائیں جائیں گے جس میں سب سے زیادہ منسلک ریاستیں ایک ’اندرونی دائرہ‘ بنائیں گی۔

اس اقدام، جس کو ایک مفاہمت کی کوشش کے  طور پر دیکھا جائے گا، میں ’ایسوسی ایٹ ممبرشپ‘ کا ایک نیا بیرونی درجہ برطانیہ کے لیے کھلا ہو گا جس سے قریبی اقتصادی تعلقات کی بنیاد رکھی جائے گی۔

سابق نائب وزیر اعظم مائیکل ہیسلٹائن سمیت سینئر ٹوریز نے دی انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہوئے اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو فوری طور پر اس منصوبے پر سوچ بچار کرنی چاہیے کیونکہ ’برطانیہ میں لوگوں کی اکثریت اب بریگزٹ کو غلطی کے طور پر دیکھتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ڈیم ٹوٹ رہا ہے اور یورپ کے ساتھ انضمام کی طرف تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔

لیکن اس پیشکش پر بریگزٹ کے حامیوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے جنہوں نے بلاک کو وسعت دینے کی کوشش میں یورپی یونین کے ممالک پر ’مایوسی‘ کا الزام لگایا۔

اس منصوبے کی خبریں اس وقت سامنے آئیں جب برطانوی سیاست دان سر کیر سٹارمر نے پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ بات چیت کی۔ لیبر پارٹی کے رہنما کا پیرس کا یہ دورہ خود کو آئندہ کے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے بین الاقوامی دوروں کے سلسلے کا آخری پڑاؤ تھا۔

لیکن جیسا کہ دونوں اہم پارٹیاں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں بریگزٹ کے معاملے پر احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں، لیبر اور حکمران جماعت نے یورپی یونین کی کسی بھی قسم کی ایسوسی ایٹ رکنیت کو مسترد کر دیا۔

اتحاد میں رہنے کے حامی کاروباری افراد اور اسے چھوڑنے کے حامی ووٹروں دونوں سے اپیل کرنے کی کوشش کرنے والے سر کیر نے اختتام ہفتہ کو وعدہ کیا کہ اگر وہ اگلا الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ ایک ’بہت ہی بہتر‘ بریگزٹ ڈیل حاصل کریں گے لیکن انہوں نے بھی کسٹم یونین یا سنگل مارکیٹ میں دوبارہ شامل ہونے کو مسترد کر دیا۔

مارچ میں حکومتی نگران ادارے ’آفس فار بجٹ ریسپانسیبلٹی‘ کی چیئرپرسن نے خبردار کیا تھا کہ بریگزٹ کے معاشی اثرات کرونا کی وبا اور توانائی کی قیمتوں کے بحران کی طرح ’شدید‘ تھے۔

رچرڈ ہیوز نے کہا کہ برطانیہ کی جی ڈی پی، جو کسی ملک کی دولت کا ایک اہم پیمانہ ہوتا ہے، چار فیصد زیادہ ہوتی اگر برطانیہ یورپی یونین سے نہ نکلتا۔

ایسوسی ایٹ رکنیت کے منصوبے کے تحت برطانیہ سے توقع کی جائے گی کہ وہ یورپی یونین کے سالانہ بجٹ میں حصہ ڈالے گا اور سنگل مارکیٹ میں شرکت کے بدلے یورپی عدالت انصاف کے زیر انتظام کام کرے گا۔

فرانس اور جرمنی کی طرف سے پیش کردہ ایک مقالے میں کہا گیا ہے کہ ایسوسی ایٹ ممبران، جو بلاک کا پہلا ’بیرونی درجہ‘  تشکیل دیں گے، میں سنگل مارکیٹ کے وہ ممبران شامل ہو سکتے ہیں جو یورپی یونین میں شامل نہیں ہیں جیسا کہ سوئٹزرلینڈ یا برطانیہ بھی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وہ  ’قریبی اتحاد‘ اور مزید انضمام کے پابند نہیں ہوں گے لیکن انہیں یورپی یونین کے ’مشترکہ اصولوں اور اقدار‘ کا پابند ہونا پڑے گا۔

اگرچہ یہ ممالک یورپی یونین کے بجٹ کے لیے ادائیگی کریں گے لیکن یہ اخراجات مکمل رکنیت والے ممالک کی جانب سے ادا کردہ اخراجات سے کم ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سر کیر نے کہا کہ صدر میکرون کے ساتھ ان کی ملاقات ’تحائف کے تبادلے‘ کے ساتھ شروع ہوئی اور اس میں ’ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات‘ اور مستقبل کی خوشحالی اور سلامتی سمیت موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔

سر کیر نے اقتدار میں آنے کی صورت میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے کے منصوبوں پر زور دیا۔

ایک یورپی سفارتی ذریعے نے ٹائمز کو بتایا کہ فرانس اور جرمنی کا یہ منصوبہ لیبر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے اس کے باوجود کہ سر کیر نے یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ میں دوبارہ شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔

ذرائع نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ’سیاسی طور پر اسے احتیاط سے متوازن بنایا گیا ہے کہ برطانیہ کے لیے یورپی یونین میں دوبارہ شامل ہونے یا ریفرنڈم کی ضرورت کے بغیر ایک ممکنہ حل نکالا جائے۔‘

پارٹی کے ترجمان نے کہا: ’لیبر برطانیہ کے لیے بہتر ڈیل حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ تاہم اس میں کسی بھی قسم کی رکنیت شامل نہیں ہے۔‘

وزیر اعظم کے سرکاری ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا رشی سونک برطانیہ کو یورپی یونین کا ایسوسی ایٹ رکن بننے کی حمایت کریں گے تو انہوں نے کہا: ’نہیں۔‘

ایسوسی ایٹ رکنیت میں کسٹم یونین شامل نہیں ہوگی جس سے برطانیہ کو آزاد تجارتی پالیسی برقرار رکھنے کی اجازت ہوگی۔

لارڈ ہیسلٹائن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ برطانیہ کو فرانس اور جرمنی کے منصوبے پر ’فوری طور غور کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا: ’عوامی رائے کا بے حد دباؤ سیاست کی سمت کو بدل رہا ہے۔‘

’ڈیم ٹوٹ رہے ہیں اور یورپ کے ساتھ اتحاد کی طرف تیزی سے قدم بڑھ رہا ہے۔ یہ فرانس اور جرمنی کی طرف سے پیش کردہ ایک موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘

ان کے بقول: ’برطانیہ میں لوگوں کی بڑی اکثریت بریگزٹ کو ایک غلطی کے طور پر دیکھتی ہے، یہاں تک کہ جو لوگ اب بھی اس پر یقین رکھتے ہیں وہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اسے نافذ کرنا کبھی ممکن نہیں رہا۔‘

انہوں نے کہا: ’سائنس اور ٹیکنالوجی پر تعاون کے لیے پہلے شمالی آئرلینڈ اور ونڈسر کے معاہدے اور پھر ہورائزن کے ساتھ ٹوریز نے کم از کم تسلیم کیا ہے کہ اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اگلے الیکشن کے بعد سیاسی موقف بدل سکتا ہے۔ ’

’اگرچہ عام انتخابات کے اس طرف ’ریڈ وال‘ ناقابل تسخیر ہوسکتی ہے تاہم واقعات کا دباؤ دونوں اہم سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو تبدیلی کی ہمت اور یورپ کے ساتھ مستقل روابط بنانے پر مجبور کرے گا۔‘

’فرانس اور جرمنی کے درمیان اس نئے منصوبے پر فوری طور پر غور کیا جانا چاہیے۔‘

اس منصوبے کے جواب میں کنزرویٹو رکن پارلیمان ٹوبیاس ایل ووڈ، جنہوں نے پہلے برطانیہ سے یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ میں دوبارہ شامل ہونے کا مطالبہ کیا تھا، نے کہا کہ برطانیہ کو ’یورپ کے ساتھ عملی طور پر دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ بریگزٹ معاہدہ باقاعدہ طور پر دوبارہ مذاکرات کے ذریعے کیا گیا، ہمیں معاشی فائدے کے لیے مزید راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

سر جیکب ریز موگ سے جب یورپی یونین کے نئے بیرونی درجے میں شمولیت کے امکانات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’مجھے وہ بیرونی درجہ پسند ہے جس میں ہم اس وقت ہیں۔‘

بریگزٹ کے سابق وزیر لارڈ فراسٹ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ برطانیہ کو ایسوسی ایٹ رکنیت پر ’یقینی طور غور نہیں کرنا چاہیے۔‘

ٹوری کے سابق وزیر تجارت سر جان ریڈ ووڈ نے کہا کہ سنگل مارکیٹ چھوڑنا ’بریگزٹ کا ایک اہم حصہ‘ تھا اور اس میں دوبارہ شامل ہونے سے برطانوی صنعت کو ’بہت نقصان‘ پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ بریگزٹ کی ’زبردست جیت‘ کی وجہ سے اب برطانیہ کو بلاک کے بجٹ میں حصہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ٹوری رکن پارلیمان کریگ میکنلے نے کہا کہ یہ خیال ایک ایسے وقت میں ’مایوسی کی علامت‘ ہے جب بہت سے رکن ممالک سوچ رہے ہیں کہ ’یہ جمہوریت کو کھا جانے والا درندہ کس لیے ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’برطانیہ نے اسے ایک بار مسترد کیا اور یہ پھر بھی ایسا ہی کرے گا۔‘

بریگزٹ مخالف مہم چلانے والی جینا ملر نے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا کہ برطانیہ کو یورپی یونین میں دوبارہ شامل ہونے کے عمل کو شروع کرنے کے لیے اسے ایک موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

ان کے بقول یہ 'پیاز' کی طرح کا آپشن ہے جو یورپی یونین کی بیرونی تہہ کا حصہ ہے اور یہ ہمارے یورپی ہمسایہ ممالک کی طرف مفاہمت کی کوشش ہے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے احتیاط سے بات چیت کرنی چاہیے کہ ہم کم از کم وہ اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کر لیں جو ہم بریگزٹ انتہا پسندی کے تحت کھو چکے ہیں۔‘

اور یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے مہم چلانے والی تنظیم ’بیسٹ فار بریٹین‘ نے کہا کہ یہ تجاویز ’حوصلہ افزا‘ ہیں حالانکہ ایسوسی ایٹ رکنیت ان کا راستہ نہیں ہے۔

منصوبے کے تحت بیرونی اراکین کے لیے دوسرے درجے میں یورپی یونین قانون کے ساتھ کوئی انضمام شامل نہیں ہوگا لیکن انہیں یورپین پولیٹیکل کمیونٹی (ای پی سی) کے اپ گریڈ میں شامل ہونا پڑے گا جس کا برطانیہ بھی ایک حصہ ہے۔ اس میں توانائی یا دفاع جیسے بعض شعبوں میں آزاد تجارت کے معاہدے شامل ہوں گے اور ماحولیاتی اور سلامتی جیسے اہم مسائل پر تعاون پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

یہ مقالہ ’فرانکو جرمن ورکنگ گروپ آن یورپی یونین انسٹی ٹیوٹشنل ریفارم‘ نے لکھا ہے جو ماہرین، تعلیم دان اور وکلا پر مشتمل ہے جسے رواں سال کے شروع میں فرانسیسی اور جرمن حکومتوں نے ترتیب دیا تھا۔ یہ تجاویز یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزرا کے ماہانہ اجلاس میں پیش کی جانی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ