اطلاعات ہیں کہ جسٹن ٹروڈو کی جانب سے انڈیا پر سرعام الزامات لگانے سے چند روز قبل کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل میں انڈیا کے مبینہ کردار کی مشترکہ مذمت کے لیے فائیو آئیز ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
کینیڈین وزیراعظم نے پیر کو اس وقت ایک بڑا سفارتی تنازع کھڑا کر دیا جب انہوں نے اعلان کیا کہ تین ماہ قبل سکھ علیحدگی پسند ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے ’قابل اعتماد الزامات‘ ہیں۔
مغربی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کینیڈا نے طاقتور ترین معیشتوں عالمی رہنماؤں کے نئی دہلی میں ہونے والے جی 20 سربراہ اجلاس سے چند ہفتے قبل فائیو آئیز انٹیلی جنس شیئرنگ ممالک کے اپنے قریبی اتحادیوں سے رابطہ کیا تاکہ مشترکہ طور پر اس معاملے کو اٹھایا جا سکے۔
انہوں نے کہا: ’لیکن اوٹاوا کی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ مغربی رہنما جی 20 اجلاس میں انڈیا کا وقت خراب نہیں کرنا چاہتے تھے، جس کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ’اہم پارٹی‘ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔‘
تاہم کینیڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے انڈیا کے خلاف حمایت پر فائیو آئیز کے ساتھ رابطے کی تردید کرتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے بیان میں کہا: ’یہ دعوے غلط ہیں کہ کینیڈا نے اپنے اتحادیوں سے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی سرعام مذمت کرنے کو کہا اور بعد میں اسے مسترد کر دیا گیا۔‘
نجر کو 18 جون کو برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں ایک گردوارے کی پارکنگ میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ٹھیک تین ماہ بعد پیر کو ہاؤس آف کامنز میں ٹروڈو نے الزام لگایا کہ اس قتل میں ’انڈین حکومت کے ایجنٹ‘ ملوث ہیں۔
انڈیا نے اس دعوے کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور اس کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے: ’ہمارے داخلی معاملات میں کینیڈین سفارت کاروں کی مداخلت اور انڈین مخالف سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے پر ہماری تشویش بڑھ رہی ہے۔‘
مسٹر ٹروڈو کے اس اعلان کے فوراً بعد کینیڈا نے ایک نامعلوم بھارتی سفارت کار کو نکال دیا، جس کی شناخت سفارت خانے کے سینئر انٹیلی جنس افسر کے طور پر کی گئی، جب کہ انڈیا نے کینیڈا کے سب سے سینئر سفارت کاروں میں سے ایک کو ملک بدر کر دیا ہے۔
فائیو آئیز الائنس انٹیلی جنس شیئرنگ گروپ ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
اسے دنیا کے سب سے کامیاب انٹیلی جنس اتحادوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، جس نے سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کے بارے میں انٹیلی جنس جمع کی اور خفیہ انٹیلی جنس کا تبادلہ کیا۔
مئی 2020 میں اس اتحاد نے انسانی حقوق کی پاسداری اور جمہوریت کے فروغ کے لیے مزید عوامی عزم کو اپناتے ہوئے اپنے مشن کو صرف سکیورٹی اور انٹیلی جنس سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔
اگرچہ کینیڈا کی وزارت خارجہ نے فائیو آئیز سے رابطے کی تردید کی ہے لیکن اس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسٹر ٹروڈو پیر کو پارلیمنٹ میں غیر معمولی بیان دینے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔
وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ وہ بھی اس ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اپنے ساتھی جی سیون ہم منصبوں کے ساتھ اس قتل کے متعلق دعووں پر بھی تبادلہ خیال کریں گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے کینیڈین حکومت کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ کینیڈا نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کی انٹیلی جنس معلومات پر ’امریکہ کے ساتھ مل کر‘ کام کر رہا ہے اور ’مناسب وقت‘ شواہد شیئر کیے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا تھا، ’ہم امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جس میں گذشتہ روز منظر عام پر آنے والے انکشافات بھی شامل ہیں۔‘
جیو پولیٹیکل اور سکیورٹی انٹیلی جنس فرم ڈریگن فلائی میں لندن میں مقیم ایشیا کے تجزیہ کار جونا کپلان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مغربی ممالک کی ترجیح ہو گی کہ انڈیا کو سزا دینے کے بجائے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا، ’برطانیہ اور امریکہ جیسی کئی مغربی حکومتوں نے انڈیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے، اور امکان ہے کہ اسے خطرے میں نہیں ڈالا جائے گا۔
’مغربی ممالک چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی تزویراتی مسابقت میں انڈیا کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسی لیے ان کی ترجیح انڈیا کو سزا دینے کی بجائے موجودہ دوطرفہ تنازع کو ختم کرنا ہو گی۔‘
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے پروفیسر جونا بلینک نے کہا کہ ٹروڈو ممکنہ طور پر اس اقدام سے کینیڈا کے انڈیا کے ساتھ تعلقات پر پڑنے والے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ پھر بھی ’فیصلہ کیا کہ اس قیمت کے بدلے یہ مسئلہ انتہائی اہم ہے۔‘
اگرچہ انہوں نے کینیڈا کے سرعام بیان کا ساتھ نہیں دیا جس میں نجر کے قتل پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ، لیکن فائیو آئیز کے دیگر ارکان نے ’سنگین‘ الزامات پر’سنگین‘ تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ان الزامات پر ’گہری تشویش‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واشنگٹن کا ماننا ہے کہ ’یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات جاری رہیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘
برطانوی حکومت، جس سے انڈین حکومت نے مطالبات کیے ہیں کہ علیحدگی پسند خالصتان تحریک سمیت نام نہاد ’انڈیا مخالف سرگرمیوں‘ کی تحقیقات کرے، نے کہا کہ لندن کینیڈین تحقیقات مکمل ہونے تک انتظار کرے گا۔
انڈیا نے اس سال کے شروع میں برطانیہ کے سامنے یہ معاملہ اس وقت اٹھایا تھا جب سکھ مظاہرین نے ایک مشہور سکھ مبلغ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لندن میں انڈین ہائی کمیشن کی عمارت سے پرچم اتار دیا اور اس کی کھڑکیاں توڑ دی تھیں۔
جیمز کلیورلی نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانیہ ’کینیڈا کی جانب سے اٹھائے گئے سنگین خدشات کو بہت غور سے سنے گا۔‘
لیکن وہ تجارتی بات چیت کو معطل نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی کارروائی کریں گے کیونکہ ’کینیڈا اور انڈیا دونوں برطانیہ کے قریبی دوست ہیں، وہ دولت مشترکہ کے شراکت دار ہیں۔‘
آسٹریلیا کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ کینبرا کو ان الزامات پر ’گہری تشویش‘ ہے اور انہوں نے ’انڈیا میں اعلیٰ سطح پر اپنی تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’دیکھیے، یہ رپورٹیں باعث تشویش ہیں اور میرے علم کے مطابق تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔
’جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ ان پیشرفتوں کی بغور نگرانی کر رہے ہیں اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ آسٹریلیا نے اپنے انڈین ہم منصبوں کے ساتھ ان مسائل کو اٹھایا ہے۔‘
وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ وہ فائیو آئیز اتحاد کی سرگرمیوں پر سرعام کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا، ’میں پریس کانفرنس میں فائیو آئیز انٹیلی جنس کے بارے میں بات نہیں کرتا ... ہم اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کرتے کہ انٹیلی جنس کیا ہے۔‘
© The Independent