منفی خیالات کو جھٹکنا ذہنی صحت کے لیے اچھا ہے: نئی تحقیق

محققین نے دریافت کیا ہے ایسا کرنے سے کہ نہ صرف منفی خیالات کم ہوتے گئے بلکہ مطالعے میں شامل افراد کی ذہنی صحت میں بھی بہتری آئی۔

عام طور پر سمجھا جاتا رہا ہے کہ منفی خیالات ذہنی اور جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں (اینواتو)

ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ منفی خیالات کو دبانا آپ کی ذہنی صحت کے لیے اچھا ہو سکتا ہے۔

یہ نتائج عام طور پر پائی جانے والی اس سوچ کے برعکس ہیں جس کے تحت خیالات کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے لاشعور میں رہتے ہیں اور ہمارے طرز عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی کی میڈیکل ریسرچ کونسل (ایم آر سی) کاگنیشن اینڈ برین سائنسز یونٹ کے محققین نے دنیا بھر میں 120 رضاکاروں کو ان منفی واقعات کے بارے میں خیالات دبانے کی تربیت دی جو انہیں پریشان کرتے تھے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ نہ صرف یہ (ڈپریشن) کم ہوتی گئی بلکہ مطالعے میں شامل افراد کی ذہنی صحت میں بھی بہتری آئی۔

پروفیسر مائیکل اینڈرسن کے بقول: ’ ہم سب آسٹرین نیولروجسٹ سگمنڈ فرائڈ کے اس خیال سے واقف ہیں کہ اگر ہم اپنے احساسات یا خیالات کو دبائیں تو یہ ہمارے لاشعور میں رہ جاتے ہیں اور ہمارے رویے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’سائیکو تھراپی کا واحد مقصد ان خیالات کو ختم کرنا ہے تاکہ کوئی بھی شخص ان سے نمٹ سکے اور ان کی طاقت چھین سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا حالیہ برسوں میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ خیالات کو دبانا اندرونی طور پر غیر مؤثر ہے اور یہ دراصل لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، یہ ’پریشانی کو سر سے جھاڑ دو‘ کی بہترین مثال ہے۔

جب 2020 میں کرونا وبا پھوٹی تو بہت سے محققین کی طرح پروفیسر اینڈرسن بھی یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کی اپنی تحقیق کو وبائی مرض کے دوران لوگوں کی مدد کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسراینڈرسن کی لیباٹری اور کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ڈاکٹر زلکیڈا مامت نے کہا: ’ہمیں نظر آ رہا تھا کہ کووڈ وبا کی وجہ سے کمیونٹی میں بڑھتی ہوئی تشویش سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے بقول: ’ذہنی صحت کا پہلے ہی بحران تھا، ذہنی صحت کے مسائل کی ایک پوشیدہ وبا موجود تھی، اور یہ بدتر ہوتا جا رہا تھا۔

لہذا اس پس منظر کے ساتھ ہم نے یہ دیکھنے کا فیصلہ کیا کہ آیا ہم لوگوں کو اس سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد کرسکتے ہیں یا نہیں۔‘

مطالعے میں، ہر شخص سے کہا گیا کہ وہ ایسے منظر ناموں کے بارے سوچیں جو ان کی زندگی کے آئندہ دو برسوں میں رونما ہوسکتے ہیں- 20 منفی خوف اور خدشات جن سے وہ خوفزدہ تھے اور 20 مثبت امیدیں اور خواب۔‘

ہر منظر نامے کے لیے انہیں ایک کیو ورڈ اور ایک تفصیل فراہم کرنا تھی۔

ہر واقعے کی درجہ بندی متعدد نکات، واضح، ان کے پیش آنے کے امکانات، مستقبل میں دوری، واقعے کے متعلق اضطراب یا خوشی کی سطح، سوچ کی فریکوئنسی، موجودہ تشویش کی سطح، طویل مدتی اثرات اور جذباتی شدت کے طور پر کی گئی تھی۔

رضاکاروں نے اپنی ذہنی صحت کے جائزہ کے لیے سوالنامے بھی مکمل کیے۔

اس کے بعد زوم کے ذریعے ڈاکٹر مامت نے ہر رضاکار کو 20 منٹ کی تربیت دی، جس میں 12 ایسے ٹرائلز شامل تھے جن کا تصور نہ کیا گیا ہو اور 12 ایسے تھے جن کا تصور کیا گیا ہو، جہاں انہیں کہا گیا کہ کیو ورڈ دیے جانے کے بعد وہ یا تو واضح طور پر سوچیں، یا کسی واقعے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں۔

تیسرے دن کے اختتام پر اور تین ماہ بعد، رضاکاروں کو ایک بار پھر کہا گیا کہ وہ ہر واقعے کی واضح، اضطراب کی سطح اور جذباتی شدت پر درجہ بندی کرنے کے لیے کہا گیا تھا.

مطالعے کے مطابق، دونوں جگہوں پر رضاکاروں نے بتایا کہ دبے ہوئے واقعات کم واضح اور کم خوفناک تھے. انہوں نے خود کو ان واقعات کے بارے میں کم سوچتے ہوئے پایا۔

ڈاکٹر مامت کا کہنا تھا، ’یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ واقعات جن میں شرکا نے دبانے کی مشق کی وہ دیگر واقعات کے مقابلے میں کم واضح اور جذباتی طور پر کم بے چینی پیدا کرنے والے تھے اور مجموعی طور پر شرکا کی ذہنی صحت میں بہتری آئی۔

لیکن ہم نے ان شرکا میں سب سے زیادہ اثر دیکھا جنہیں غیر جانبدار خیالات کے بجائے خوف زدہ خیالات کو دبانے کی مشق دی گئی تھی۔‘

نتائج کے مطابق، خیالات کو دبانے سے ان لوگوں کی ذہنی صحت میں بھی بہتری آئی ہے جو ممکنہ طور پر پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں۔

پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس کے شکار افراد میں جو منفی خیالات کو دباتے ہیں، ان کے منفی ذہنی صحت کے سکور میں اوسطا 16 فیصد کمی ہوئی جبکہ مثبت ذہنی صحت کے سکور میں تقریبا 10 فیصد اضافہ ہوا۔

عام طور پر، مطالعہ کے آغاز میں بدتر ذہنی صحت کی علامات والے افراد میں دبانے کی تربیت کے بعد زیادہ بہتری آئی، لیکن صرف اس صورت میں جب انہوں نے اپنے خوف کو دبایا۔

محققین نے یہ بھی بتایا کہ ایک رضا کار اس تکنیک سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں اپنی بیٹی اور اپنی ماں کو یہ کرنے کا طریقہ سکھایا۔

برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل اور مائنڈ سائنس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے یہ نتائج سائنس ایڈوانسز جرنل میں شائع ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت